اللہ کی معرفت
اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی کے ساتھ خالق نے یہ کیا کہ انسان کے جسم میں ہر سیل (cell) کے اندر اپنا شعور پیوست کردیا۔ سائنسی دریافت نے بتایا ہے کہ انسان کے جسم میں کئی ٹریلین (37.2 trillion) سیل موجود ہیں۔ بالقوۃ طور پر ہر سیل کے اندر خالق کی معرفت موجود ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو اللہ کی معرفت حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر بے شمار سطح پر اللہ کا شعور جاگ اٹھے۔ انسان کے اندر معرفت رب کی ایک کائنات وجود میں آجائے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے۔ سیل کی تخلیق کو لے کر سوچا جائے تو معرفت حاصل کرنے کا مطلب ہے— انسانی شخصیت کے اندر موجود امکان کو واقعہ بنانا۔ یہ معرفت پوٹنشیل (potential) کے طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ تدبر اور غور و فکر کے ذریعے وہ اس پوٹنشیل کو ایکچول (actual) بنائے۔ وہ اپنے بالقوۃ عارف ہونے کو دریافت کرے، اور فکری جدوجہد کے ذریعہ اس بالقوۃ کو بالفعل بنا لے۔
اللہ کی معرفت، خالق کائنات کی معرفت ہے۔ خالق کائنات کی معرفت سارے علوم کا خزانہ ہے۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل ہوگئی، اس کو تمام چیزوں کی معرفت حاصل ہوگئی۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل نہیں ہوئی، وہ علوم کے سرچشمہ سے بے بہرہ رہے گا۔
ایک عالم نے مدارس کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: علوم کے سرے پکڑیے۔ یہ ایک مبہم بات ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ خالق کی معرفت حاصل کیجیے، اور پھر آپ تمام علوم کے عارف بن جائیں گے۔ اس کے بعد تمام علوم کے سرے آپ کی پکڑ میں آجائیں گے۔ آپ کو وہ فرقان مل جائے گا، جو آپ کے اندر صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کردے گا۔اسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔