سماجی آداب

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک صحابی، وابصہ الاسدی پیغمبر اسلام کے پاس آئے۔ وہ نیکی اور بدی کے تمام سوالات آپ سے پوچھنا چاہتے تھے(لا أدع شیئا من البر والإثم إلا سألتہ عنہ)۔ رسول اللہ نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا، بلکہ یہ فرمایا: یا وابصة استفت قلبک، واستفت نفسک ’’ ثلاث مرات‘‘، البر ما اطمأنت إلیہ النفس، والإثم ما حاک فی النفس، وتردد فی الصدر، وإن أفتاک الناس وأفتَوک(مسند احمد، حدیث نمبر 18006)۔ یعنی اے وابصہ، اپنے دل سے فتویٰ پوچھو، اور اپنے جی سے فتویٰ پوچھو (یہ بات آپ نے تین بار کہی، اس کے بعد فرمایا) نیکی وہ ہے جس پر تمھارا دل مطمئن ہو، اور بدی وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے۔ اور تمھارے دل میں تردد پیدا ہو۔ چاہے لوگ کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں۔

اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر آدمی ہر معاملے میں اپنا مفتی خود بن جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسئلے کو شرعی مسئلہ نہ بناؤ۔ کھلی ممنوعات کے سوا جو چیزیں ہیں، ان میں کامن سنس (common sense) پر عمل کرو۔

مثلا انڈیا میں ملاقات کے وقت پاؤں چھونے کا رواج ہے۔ یہ عمل کوئی مذہبی عمل نہیں ہے، بلکہ وہ بطور احترام (as a mark of respect) ہوتا ہے۔ ملاقات کے وقت احترام کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلا سر کو یا ہاتھ کو بوسہ (kiss) کرنا، یا رکوع کی مانند جھک جانا، وغیرہ۔ جس طرح سے یہ علامتی طریقے جائز ہیں، اسی طرح علامتی طور پر پاؤں کا چھونا بھی جائز ہے۔

قرآن کے مطابق، حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کے سامنے بوقت ملاقات ایک فعل کیا تھا، جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا (12:100)۔ اس آیت میں معروف سجدہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد بطور تعظیم جھک جانا ہے۔ اس کا تعلق آداب حیات سے ہے، نہ کہ شرعی عبادت سے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom