عرب جاہلیت
عرب میں اسلام سے پہلے جو زمانہ تھا، اس کو جاہلیت کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ جاہلیت کے لفظی معنی ہیں بے خبری (ignorance)۔ بلاشبہ یہ لوگ توحید سے بے خبر تھے، لیکن ان کے اندر اعلی درجے کی انسانی صفت موجود تھی۔ واقعات بتاتے ہیں کہ عربوں میں انسانی اخلاق اور انسانی شرافت اعلیٰ درجے میں موجود تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صفا کے پاس تھے۔ وہاں ابوجہل (عمرو بن ہشام) آیا۔ اس نے آپ کو بہت زیادہ برا بھلا کہا۔ ایک عورت اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ پیغمبر اسلام نے کچھ نہیں کہا، آپ خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلے گیے۔اس کے بعد آپ کے چچا، حمزہ بن عبد المطلب وہاں آئے۔ مذکورہ عورت نے حمزہ کو یہ قصہ بتایا، اور کہا کہ تھوڑی دیر پہلے اگر تم وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ تمھارے بھتیجے کو ابوجہل نے کتنا زیادہ برا بھلا کہا۔ حمزہ کو غصہ آگیا۔ اس وقت ان کے پاس لوہے کی کمان تھی۔ وہ ابوجہل کے پاس گیے، اور اس کو اتنے زور سے مارا کہ خون بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر ابوجہل کےقبیلہ بنو مخزوم کے لوگ اٹھے، انھوں نے چاہا کہ حمزہ سے اپنے سردار کا انتقام لے۔ لیکن ابوجہل نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو روک دیا: حمزہ کو چھوڑ دو، کیوں کہ میں نے ان کے بھتیجے کو بہت زیادہ برا بھلا کہہ دیا تھا ( قد سببت ابن أخیہ سبا قبیحا)۔ سیرۃ ابن ہشام 1/292
ابو جہل نے اسلام قبول نہیں کیا،لیکن اس کے اندر عرب کردار بھرپور طور پر موجود تھا۔ اسی عرب کردار کی وجہ سےاس نے اس وقت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ دیکھا کہ اگر حمزہ نے مجھ کو مارا تو میں نے بھی حمزہ کے بھتیجےمحمد کو بہت زیادہ برا بھلا کہا تھا۔ یہ ایک مثال ہےجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں کا قومی کردار کیا تھا۔ ان کے اندر اعلیٰ انسانی اوصاف موجود تھے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:خیارہم فی الجاہلیة خیارہم فی الإسلام، إذا فقہوا (صحیح البخاری، حدیث نمبر3353)۔