ہار جیت کا دن
قرآن کی سورہ نمبر 64 میں بتایا گیاہے کہ قیامت کا دن یوم التغابن ہوگا۔ یعنی ہار جیت (loss and gain) کا دن۔ ہار اور جیت ہمیشہ دو فریقوں (parties)کے درمیان ہوتی ہے۔ پھر قیامت کی یہ ہار جیت کن دو فریقوں کے درمیان ہوگی۔
اس سوال کا جواب ایک اور آیت بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (2:36) میں ملتا ہے۔ اس کے مطابق یہ ہار جیت انسان اور ابلیس کے درمیان ہوگی۔ زرتشت (Zoroaster) نے کہا تھا کہ دنیا خیروشر کی طاقتوں کے درمیان مسلسل جنگ کا میدان ہے۔
The world is a perpetual battleground between good and evil forces.
لیکن تخلیقی منصوبہ کے مطابق زیادہ صحیح بات یہ ہے — دنیا انسان اور ابلیس کے درمیان مسلسل مقابلہ آرائی کا میدان ہے۔
The world is a perpetual battleground between man and Satan.
قرآن کے مطابق موجودہ دنیا امتحان گاہ (testing ground) ہے۔ اس امتحان میں ایک طرف ابلیس اور اس کا لشکر ہے جو مسلسل طورپر یہ کوشش کررہا ہے کہ انسان کو خدا کے راستہ سے ہٹا کر نفس کے راستہ پر ڈال دے۔ اب جو انسان خدا کے راستہ کو چھوڑ کر اپنے نفس کے راستے پر چلنے لگے وہ شیطان کے مقابلہ میں ہار گیا۔ اس کے برعکس جو انسان ذہنی بیداری کا ثبوت دے، جو شیطان کے بہکاوے کے باوجود خدا کے راستہ پرچلتا رہے اس نے شیطان کے مقابلہ میں جیت حاصل کی۔
ہار جیت کا یہ معاملہ اسی موجودہ دنیا میں پیش آتا ہے۔ قیامت کےدن صرف اس کا اظہار ہوگا۔ مثلاً آپ کو کسی نے مشتعل کردیا۔ اب اگر آپ امن پر قائم رہے تو آپ جیت گئے اور اگر آپ بھڑک کر تشدد پر اتر آئے تو آپ ہار گئے۔ اگر آپ کو کسی کی بات بری لگ گئی اور آپ نے اس کو نظر انداز کردیا تو آپ جیت گئےاور اگر آپ غصہ ہو کر اس سے نفرت کرنے لگے تو آپ ہار گئے۔ اگر مقابلہ کی اس دنیا میں آپ پیچھے ہوگئے، آپ نے اپنے پچھڑے پن کا ذمہ دار خود کو بتایا تو آپ جیت گئے اور اگر آپ نے پچھڑے پن کا سبب یہ قرار دیا کہ ایسا دوسروں کی سازش (conspiracy) کی بنا پر ہوا تو آپ ہار گئے۔ اگر کسی نے آپ کے اوپر حملہ کرنا چاہا ا ور آپ نے اس کو مینیج (manage)کیااور جنگ کی نوبت نہ آنے دی تو آپ جیت گئے اور اگر آپ ردّ عمل (reaction)کا شکار ہوکر اس سے لڑنے لگے تو آپ ہار گئے۔
انسان اور ابلیس کے درمیان یہ جنگ ساری عمر جاری رہتی ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کے بارےمیں انسان کو سب سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ ان مواقع پر جو شخص جیت گیا، آخرت میں وہ فرشتوں کی صحبت میں جگہ پائے گا۔ اور جو شخص شیطان کے بہکاوے کا شکار ہوجائے، اس کا وہ انجام ہوگا جو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ اللہ نے ابلیس سےخطاب کرتے ہوئے کہا تھا: لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ أَجْمَعِینَ (7:18)۔یعنی انسانوں میں سےجو کوئی تیری راہ پر چلے گا تو میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔
موجودہ دنیا میں آدمی خواہ کچھ بھی حاصل کرلے لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے اس میں غم کا پہلو شامل رہتا ہے— جسمانی تکلیف، نفسیاتی پریشانی، کھونے کا اندیشہ، حادثہ، بیماری، تکان(boredom)، تشنۂ تکمیل خواہش (unfulfilled desire)، بڑھاپا، موت، مستقبل کا اندیشہ، ملی ہوئی چیزوں کا امپرفکٹ (imperfect) ہونا، عدم یقین (uncertainty)، آدمی کی محدودیت(limitations)، نتیجہ پر کنٹرول نہ ہونا، دوسروں کا خوف، تردد (tension)، وغیرہ۔