ہدایت ربانی
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ (29:69)۔یعنی جن لوگوں نے ہمارےلیے کوشش کی، ان کو ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ اور یقیناً اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوشش کرنے سے انسان کے لیے راستے کھلتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی دین کے نام پر کوئی کوشش شروع کرے اور کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوکہ اس کی کوشش عملاً نتیجہ خیز نہیں ہورہی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے پورے معاملے پر نظر ثانی (rethinking) کرے۔ اگر وہ کھلے ذہن کے ساتھ ایسا کرے، تو یقینا اس کو یہ رہنمائی ملے گی کہ وہ کون سا زیادہ موثر طریقہ ہے جو زیادہ نتیجہ خیز بن سکتا ہے۔ جو ایسا نہ کرے اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ آخر کار ایک بند گلی (blind alley) میں پھنس کر رہ جائے۔ ایسے لوگوں کا ماضی بھی برباد اور مستقبل بھی برباد۔
موجودہ زمانے میں تمام مسلمانوں کا حال یہی ہوا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے نو آبادیاتی نظام (colonialism) کے خلاف مسلح جدو جہدکی۔ لیکن یہ جدوجہد نتیجہ کے اعتبار سے مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ اسی طرح انھوں نےفلسطین میں اسرائیل کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ کشمیر میں انھوں نے اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ اسی طرح ہر ملک میں انھوں نے کسی کو اپنا دشمن فرض کیا، اور اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف پر شور تحریکیں چلائیں۔ لیکن ہر ملک میں ان کی تحریکیں، باعتبار نتیجہ کامل طور پرناکام ثابت ہوئیں۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق مسلمان اگر چاہتے کہ اللہ کی طرف سے کارگر رہنمائی آئے تو ان کو اپنی تحریکوں پر نظرثانی کرنا ہوگا۔ یہ نظرثانی ان کے لیے جہاد برائے خدا (Jihad for the sake of God) ہوگا۔