مصیبت یا تحریک عمل
دنیا کی زندگی میں انسان کو طرح طرح کی مصیبتیں (sufferings) پیش آتی ہیں۔ فلسفی لوگ اس کو پرابلم آف ایول (Problem of Evil) کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا اگر قادرِ مطلق ہے تو دنیا میں مختلف قسم کی سفرِنگ کیوں۔ مگر یہ سفرِنگ کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ چیلنج (challenge) کا مسئلہ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مصیبت نہیں ہے، بلکہ وہ مطالبۂ عمل ہے۔اس مسئلے کو انسانی ذہن سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اس کو خالق کے اپنے منصوبۂ تخلیق (creation plan) کی نسبت سے دیکھنا چاہیے۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کی صفت پیدا کرے۔ اور تخلیقی فکر کی صفت کبھی نارمل حالات میں پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ایسے حالات میں پیدا ہوتی ہے، جہاں انسان کو بار بار شاک (shock) کا تجربہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو امکانی صلاحیتوں (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ بالقوۃ صلاحیتیں، اپنے آپ ظہور میں نہیں آتیں۔ اس معاملے میں خالق نے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کا اصول رکھا۔ یہ صلاحیتیں شاک ٹریٹمنٹ کے ذریعہ بیدار ہوتی ہیں۔ اگر شاک ٹریٹمنٹ نہ ہو تو یہ صلاحیتیں خفتہ (dormant) حالت میں پڑی رہیں گی۔ انسان اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے میں ناکام رہے گا۔
فطرت کا یہ اصول سیکولر لوگوں کے لیے بھی ہے اور مذہبی لوگوں کے لیے بھی۔ اس معاملے میں کسی گروہ کا کوئی استثنا نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ شاک ٹریٹمنٹ کا معاملہ ہوا، انھوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔ اس کے برعکس، جن کولوگوں کے ساتھ شاک ٹریٹمنٹ کا معاملہ نہیں ہوا، وہ بڑی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔یہ فطرت کاایک اٹل قانون ہے، وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔