خوارج کا کیس
اگر سچائی اور جھوٹ کے بارے میں حساسیت اور عمل کی پابندی اور حکم الہی میں حساسیت کولے کر سوچا جائے تو خوارج کا نام آتا ہے۔ پھر کیوں ان کو مین اسٹریم مسلمانوں سےخارج کیا گیا۔کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ عمل کرنے کے ساتھ ساتھ سختی سے عمل کروانے میں بھی حساس تھے۔ اس کی صحیح توجیہ کیا ہوسکتی ہے۔(حافظ سید اقبال عمری، چنئی)
خوارج کا فرقہ پہلی صدی ہجری میں حضرت علی کے زمانے میں ابھرا۔ یہ لوگ پہلے حضرت علی کے گروہ میں شامل تھے۔ پھر حضرت علی سے اختلاف کرکے وہ باہر نکل گیے۔ اس بنا پر ان کو خوارج کہا جاتا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو الشراۃ کہتے تھے۔ یعنی اللہ کے دین کی خاطر اپنے آپ کو بیچنے والے۔ یہ لوگ اسی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے، جن کو قرآن میں اَعراب (الحجرات:14) کہا گیا ہے۔یہ غیر تعلیم یافتہ افراد تھے، جن کا کلچر شدت پسندی تھا۔ یہ لوگ دراصل غلو(extremism) کا انتہائی کیس تھے۔ آج کل کی زبان میں ان کو ریڈیکلائزڈ مسلم (radicalized muslim)کہا جاسکتا ہے۔یہ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلم سماج میں شامل ہوگیے۔ لیکن ان کی درست تربیت نہ ہوسکی۔اس لیے ان لوگوں کے اندر شدت پسندی کا قدیم مائنڈ سیٹ موجود رہا۔ معمولی اختلاف کی بنا پر وہ لوگوں کی تکفیر کرتے تھے۔ وہ اپنی شدید غلو پسندی کی بنا پر ہر اس شخص یا گروہ کو قابل قتل سمجھتے تھے، جو ان کے غالی نظریات سے اختلاف کرتا ہو۔ اسی انتہا پسندی کی بنا پر انھوں نے حضرت علی قابل گردن زدنی قرار دیا۔ کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق انھوں نے تحکیم کے معاملے میں اللہ کے بجائے حَکم (arbitrator) کے فیصلہ کو اختیار کیا تھا۔
خوار ج کا کیس یہ نہیں تھا کہ وہ حساس تھے۔ جائز حساسیت وہ ہے جو پر امن حساسیت ہو۔ ایسی حساسیت جو اپنے مخالفین کو قابل قتل سمجھے، وہ حساسیت نہیں ہے، بلکہ غیر مطلوب غلو ہے۔ ایسے لوگ بلاشبہ ناحق پر ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اسلام کا خودساختہ معیار قائم کیا۔ جس کا ان کو حق نہیں تھا۔ خوارج اسلام میں وہ پہلے لوگ ہیں جنھوں نے اسلام میں تھاٹ کرائم (thought crime)کا نظریہ داخل کیا۔ اس قسم کا انتہاپسندانہ عقیدہ رکھنے والوں کا کیس حساسیت کا کیس نہیں ہے، وہ خدا کے دین کو بدلنے کا کیس ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنے عقیدے کو اپنے دل میں رکھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اگر وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ کریں، اور اپنے مخالفین کو گردن زدنی قرار دے کر ان کو مارنے لگیں تو وہ اسلام کے اعتبار سے مجرم قرار پائیں گے۔
خوارج کا کیس دراصل سیاسی اختلافات سے پیدا ہونے والا ایک شدید مسئلہ ہے۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں جب مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہوا تو مسلمانوں میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔ یہ اختلاف پہلے صرف اختلاف کے درجے میں تھا،اس کی ایک علامت سعد بن عبادہ کا معاملہ ہے، جن کو اگرچہ اختلاف تھا۔ مگر وہ پرامن دائرے میں تھا۔ بعد کو اس اختلافات میں شدت آئی، اور عملی ٹکراؤ شروع ہوگیا۔اس دور میں ہر گروہ نے اپنے نظریے کو مشَدّد (مضبوط) کرنے کے لیے، اس کو اسلامائز کرنا شروع کیا۔ یعنی اسلامی تعلیمات سے ان کو درست ثابت کرنا۔
اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر شدت پسند فرقے پیدا ہوئے۔ شیعہ گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ علی ابن ابی طالب کے سوا بقیہ تینوں خلفاء کی خلافت غیر قانونی (unlawful) ہے۔ خوارج نے علی ابن ابی طالب کی تکفیر کی، وغیرہ۔ یہی غلو ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غلو ابتدائی طور پر بظاہر بے ضرر انداز میں شروع ہوتا ہے۔ لیکن بڑھتے بڑھتے وہ خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے پورے مسلم سماج میں انارکی، نفرت، باہمی قتل جیسی برائیاں داخل ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام میں اس ظاہرے کو نہایت برا مانا گیا ہے۔ حتی کہ اگر وہ اپنے عقیدے کو عملی صورت دینا شروع کریں تو قائم شدہ حکومت کو یہ حق ہوگا کہ یا تو وہ ان سے پر امن بات چیز کریں، جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کیا، او ر اگر پر امن بات چیت کافی نہ ہو تو حکومت کو یہ بھی حق ہے کہ و ہ سخت کارروائی کرکے ان کا خاتمہ کردے، جیسا کہ حجاج بن یوسف نے کیا۔ موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے حکومت کو عقیدہ کا درجہ دیا، وہ عملا ًدور جدید کے خوارج کی حیثیت رکھتے ہیں۔