انسان کا المیہ
انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ جنت کا طالب بنے۔ وہ آخری حد تک جنت کا خواہش مند بن جائے۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ما رأیت مثل الجنة، نام طالبہا (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر1638)۔ یعنی میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔
انسان کا ہیبیٹیٹ (habitat) جنت ہے۔ انسان کو حقیقی خوشی صرف جنت میں مل سکتی ہے۔ مگر جنت موجودہ آنکھوں سےانسان کو دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے انسان جنت کا طالب بننے کے بجائے دنیا کا طالب بن جاتا ہے۔ بچپن کا دور انسان کے لیے بےخبری کا دور ہے۔ جوانی کی عمر میں وہ غیب کی جنت کے بجائے، شہود کی جنت کو اپنا مقصود بنا لیتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں یہ ہونا چاہیے کہ انسان اپنی عمر بھر کی غلطیوں کی تلافی کرے، اور حقیقی معنوں میں جنت کا طالب بن جائے۔ مگر یہاں بھی وہ اس سے محروم رہتا ہے۔
بڑھاپے کی عمر ایک ایسی عمر ہے، جب کہ انسان کے اندر سے امنگ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر پہلے کی طرح جوش و جذبہ باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جو انسان ہو لیکن وہ جوش و خروش کی صفت سے خالی ہو۔ انسان کی یہ حالت دوبارہ بڑھاپے کی عمر میں بھی اس کو جنت کا طالب بننے سے محروم کردیتی ہے۔ اس کی ساری توجہ اس میں لگ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے۔ اپنی بقیہ عمر کو کسی نہ کسی طرح گزار دے۔
یہی تقریباً ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہرانسان اپنی فطرت کے اعتبار سے اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ جنت کا طالب بنے۔ وہ جنت کو اپنا منزل مقصود بنائے، لیکن مختلف اسباب سے وہ اپنی پوری عمر غفلت میں گزار دیتا ہے۔ وہ اپنی عمر کے پہلے حصے میں بھی جنت سے غافل رہتا ہے، اور اپنی عمر کے آخری حصہ میں بھی۔