اسلام کی عالمی اشاعت
عن ابن عباس، قال: لَمَّا مَشَوْا إلى أبی طالبٍ وکلَّموہُ وہُمْ أَشرافُ قومِہِ عُتْبةُ بنُ ربیعةَ وشیبَةُ بنُ رَبیعةَ وأبو جَہلِ بنُ ہِشامٍ وأمیَّةُ بنُ خَلَفٍ وأبو سُفیانَ بنُ حربٍ فی رجالٍ من أشرافِہمْ فقالوا یا أبا طالبٍ إنَّکَ منَّا حیثُ قدْ علِمتَ وقدْ حضَرَکَ ما تَرى وتَخَوَّفْنا علیکَ وقد علِمتَ الَّذی بینَنا وبینَ ابنِ أخیکَ فادْعُہُ فخُذْ لنا مِنہُ وَخُذْ لہ منَّا لیَکُفَّ عنَّا ولِنَکُفَّ عنہُ ولِیدَعَنا ودینَنا ولِندَعَہُ ودینَہُ فبعثَ إلیہِ أبو طالبٍ فجاءہُ فقالَ یا ابنَ أخی ہؤلاءِ أشرافُ قومِکَ قد اجتمعوا إلیک لیُعطوکَ ولیأخُذوا منکَ قال فقال رسولُ اللَّہِ صلَّى اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ یا عَمِّ کلمةٌ واحِدَةٌ تُعطونَہا تملِکونَ بہا العَرَبَ وتَدینُ لَکُم بہا العَجَمُ (البدایة والنہایة3/123)۔
کچھ لوگوں نے اس روایت کا یہ مطلب نکالا ہے کہ امت مسلمہ کا یہ نصب العین ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کریں۔ مگر اس روایت کا سیاست اور حکومت سےکوئی تعلق نہیں۔ اس روایت میں کلمہ (word)کی بات کہی گئی ہے نہ کہ حکومت قائم کرنے کی۔ کلمہ کا مطلب وہی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ideology کہا جاتا ہے۔اس روایت میں کلمہ کی عالمی توسیع سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی آئڈیالوجی ساری دنیا تک پھیلے گی۔ کوئی قلعہ یا کوئی دیوار اس کی توسیع میں رکاوٹ نہ بن سکیں گے۔ اس بات کو ایک اور حدیث میں ان الفاظ میں بیان گیا گیا ہے:لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین (مسند احمد، حدیث نمبر16957)۔ یعنی یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں۔ اور اللہ کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ دین کی عالمی اشاعت کا کام کیا جائے۔ مگر جن لوگوں نے ان احادیث کو سیاسی معنی میں لے لیا، وہ غیر ضروری طور پر دنیا سے نظری یا عملی جنگ چھیڑے ہوئےہیں۔