ایمان بالغیب

قرآن میں ہدایت یافتہ لوگوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھنے والے(البقرۃ: 3) ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق، ہدایت یافتہ لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھنے والے بن جائیں۔یہاں ایمان سے مراد لفظی اقرار نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو غیب کے اوپر پورا یقین حاصل ہوجائے۔

یہ یقین کسی آدمی کو کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ آدمی اس معاملے میں مطالعہ اور تدبر کا طریقہ اختیار کرے۔ اس موضوع پر اس کا سنجیدہ غور وفکر اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ اس کے نزدیک یقینی علم کا درجہ حاصل کرلے۔گویا کہ ایمان بالغیب ایک عمل (process) کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے۔ آدمی پہلے غیبی حقیقت کو دریافت کرتا ہے۔ پھر یہ دریافت ترقی کرکے اس کے لیے یقین کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کو وہ اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، جس کو ایمان بالغیب کہا گیا ہے۔

ایمان کسی قسم کے تلفظِ کلمہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ گہرے تدبر کے ذریعہ حاصل ہونے والی معرفت کا نام ہے۔ جب کوئی آدمی اس معرفت کے درجے تک پہنچتا ہے تو غیب اس کے لیے شہود بن جاتا ہے۔ وہ تخلیق میں خالق کو دریافت کرلیتا ہے۔ جب کسی آدمی کو یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ جان لیتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اس مقصد تخلیق کے مطابق اس کو دنیا میں کس طرح کی زندگی گزارنا ہے۔ اس کی ذمہ داریا ں کیا ہیں، اور اس کے حقوق کیا۔ وہ زندگی کی معنویت کو بھی جان لیتا ہے، اور موت کی معنویت کو بھی۔ اس کو دنیا اور آخرت دونوں کی حقیقت کا گہرا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ اس معرفت (realization) کے نتیجے میں جو انسان بنتا ہے، اسی انسان کا نام مومن ہے۔ مومن ایک تخلیقی انسان (creative person) ہوتا ہے، اس سے کم کسی چیز کو مومن یا ایمان سمجھنا، مومن اور ایمان دونوں کا کم تر اندازہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom