جدال احسن، جدال غیر احسن

دعوتی اسلوب کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ (16:125)۔ یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اچھے طریقہ سے بحث کرو۔ بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ پر چلنے والے ہیں۔

جدال احسن سے مراد ناصحانہ اسلوب میں دعوت ہے۔ یعنی ایسا اسلوب جو مدعو فرینڈلی ہو، جو مخاطب شخص یا گروہ کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی پر مبنی ہو، جو پورے معنوں میں متواضعانہ اسلوب میں ہو، جو ایسے حکیمانہ اسلوب میں ہو جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ ایسا اسلوب جس میں کوئی شخصی برتری یا قومی فخر کا پہلو نہ پایا جاتا ہو۔ جو دعا کی اسپرٹ سے بھرا ہوا ہو۔جس میں داعی ہر لمحہ یہ سوچتا ہو کہ اس کے منھ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو خدا کے یہاں اس کی پکڑ کا سبب بن جائے۔جو مکمل معنوں میں ذمہ داری کے احساس سے بھرا ہوا ہو۔

اس کے برعکس جدال غیر احسن وہ ہے جو خود ساختہ طریقے پر مبنی ہو، جس میں دعوت کے لیے مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا جائے۔ جس کا نشانہ یہ ہو کہ مخاطب کو کم تر دکھا یاجائے اور اپنے آپ کو برتر ثابت کیا جائے۔ جو سنجیدگی اور متانت سے خالی ہو۔ جس کو سن کر حاضرین تالیاں بجائیں، اور اپنے لیے قومی فخر کی غذا حاصل کریں۔

دعوت کے کام کو دعوت الی اللہ کا کام بتایا گیا ہے۔ دعوت کا درست کام وہ ہے جس کے اندر نصح اور خیر خواہی (الاعراف 68:) کی اسپرٹ بھر پور طور پر موجود ہو۔ دعوت کا کام خالصۃً اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں شروع سے آخر تک اللہ کا رنگ (البقرۃ:138) پوری طرح موجود ہوتا ہے۔ اس کا واحد محرک آخرت میں اللہ کی رضا حاصل کرناہو تا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom