کائناتی نشانیاں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔ اس آیت میں زمین و آسمان سے مراد وہ عالم ہے جس کو کائنات کہا جاتا ہے۔ آیات سے مراد نشانیاں (signs) ہیں۔
اصل یہ ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ہیں، ان سب کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ ہر چیز انسان کے لیے عملاً ایک سبق بن گئی ہے۔ تمام چیزیں روحانی حقیقتوں (spiritual realities) کی مادی تمثیلات (material illustrations) ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے نصیحت لے، اور اپنے آپ کو خدا کے راستے پر قائم رکھے۔
مثلاً وسیع خلا میں ستاروں کی گردش اس بات کی تمثیل ہے کہ اجتماعی زندگی میں لوگوں کو اپنی سرگرمیاں اس طرح جاری کرنا چاہیے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ پیش نہ آئے۔ گلاب کا درخت بتاتا ہے کہ اگر تم کانٹوں کے پڑوس میں ہو، تب بھی تم پھول بن کر رہنا سیکھو۔ ہرا بھرا درخت بتاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو جمود (stagnation) سے بچاؤ، بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو ترقی دیتے رہو۔
شہد کی مکھی اس معاملے میں ایک انوکھی مثال ہے۔ شہد کی مکھی پہاڑوں اور جنگلوں میں اڑتی ہے۔ وہاں مختلف قسم کی چیزیں ہیں، لیکن شہد کی مکھی صرف پھول پر جاکر بیٹھ جاتی ہے، اور پھر خاموشی کے ساتھ پھول سے اس کانکٹر (nectar) نکالتی ہے، اور اڑ جاتی ہے۔
اس طرح کی ایک مثال دودھ دینے والے جانور ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کو انسان گھاس اور درخت کی پتیاں کھلاتا ہے۔ لیکن دودھ دینے والے جانور انسان کو اس کے بدلے میں جو چیز لوٹاتے ہیں، وہ دودھ ہے۔ اس طرح دودھ دینے والے جانور یہ سبق دے رہے ہیں کہ دوسرا شخص تم کو خواہ ’’گھاس ‘‘ دے، مگر تم اس کو اس کے جواب میں دودھ کا تحفہ لوٹاؤ۔