اجتہاد کا مسئلہ

ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:وعلى العاقل أن یکون بصیرا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کا جاننے والا ہو۔ اس حدیث میں عاقل سے مراد وہ مومن ہے جو امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے اجتہاد کا فریضہ انجام دے۔ اجتہاد کا مطلب اپنے زمانے کی نسبت سےاسلام کی کسی تعلیم کی تطبیق نو (reapplication) کو دریافت کرنا ہے۔ اس لیے مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک طرف دین اسلام کو بخوبی طور پر جانے، اور دوسری طرف وہ اپنے زمانے سے پوری طرح آگاہ ہو۔اس دوطرفہ واقفیت کے بغیر کوئی شخص اجتہاد کا کام درست طور پر انجام نہیں دے سکتا۔

مثلاً قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (2:193)۔ اس معاملے میں مجتہد کا کام یہ ہے کہ وہ جانے کہ ساتویں صدی میں اہل اسلام کو قتال کا حکم دیا گیا تھا، تو وہ ایک مشروط حکم تھا۔ اس کا مطلب تھا قتال تا ختم ِفتنہ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اسلام میں قتال کی حیثیت حسن لذاتہ کی نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت حسن لغیرہ کی ہے۔

مجتہد جب ان دونوں پہلوؤں سے بخوبی واقفیت حاصل کرے گا تو وہ امت مسلمہ کو یہ رہنمائی دے گا کہ اب زمانہ اس اعتبار سے پوری طرح بدل چکا ہے۔ اب اسلام کے خلاف کوئی فتنہ دنیامیں باقی نہیں۔ اس لیے اب اہل اسلام کو قتال نہیں کرنا ہے، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کرنا ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام کو پر امن طور پر انجام دیا جائے۔ اس معاملے میں ان کی منصوبہ بندی پوری طرح امن پر مبنی ہونا چاہیے۔

اب موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کا کام تو بدستور امت مسلمہ پر فرض ہے، لیکن طریق دعوت اب مکمل طور پر پر امن بن چکا ہے۔ اب نئے زمانے میں یہ ممکن ہوگیاہے کہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر اشاعت اسلام اور دعوت الی اللہ کاکام بھرپور طور پر انجام دیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom