علوم کی معرفت
ایک مشہور عالم کی تقریر مدارس کے طلبہ کے سامنے ہوئی۔ اس میں انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا: علوم کے سرے پکڑیے۔ ان کی تقریر میں تعینات کی زبان میں یہ واضح نہیں تھا کہ علوم کے سرے کا مطلب کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک خطابت (rhetoric ) ہے، نہ کہ کوئی واضح رہنمائی۔
حقیقت یہ ہےکہ اصل بات علوم کے سرے پکڑنے کی نہیں ہے، بلکہ علوم کی معرفت حاصل کرنے کی ہے۔ کسی شعبۂ علم کی معلومات حاصل کرنا آسان ہے۔ لیکن اس کی گہری معرفت ایک مشکل کام ہے۔ معلومات متعلق کتابوں کے حوالے سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ لیکن معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اس پر غیر متعصبانہ انداز میں غور کیا جائے،ا ور کھلے انداز میں رائے قائم کی جائے۔
علم کی معرفت کے معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر علم میں مختلف قسم کے پہلو شامل رہتے ہیں۔ اس لیے کسی علم کے بارے میں درست رائے قائم کرنےکے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی کے اندر معلومات کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرنے کی صلاحیت ہو۔ وہ متفرق چیزوں کو سارٹ آؤٹ کرکے متعلق (relevant) کو غیر متعلق (irrelevant) سے الگ کرسکے۔ اس لیے علوم کی معرفت کے معاملے میں اصل اہمیت علوم کا سرا پکڑنے کی نہیں ہے، بلکہ ضرورت یہ ہے کہ آدمی کے اندریہ ذہن پیدا کیا جائے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت(acute sense) آ جائے کہ وہ متعلق کو غیر متعلق سے الگ کرکے دیکھ سکے۔
مثلا انڈیا کی کسی ریاست میں الیکشن ہو، اور وہاں ایک پارٹی کی جیت ہوجائے تو اس طرح کے معاملے میں انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ کیا چیز ہے جس کی حیثیت وقتی ظاہرے کی ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو بالآخرپریویل (prevail) کرے گی، اور پھر وہ مستقل اور غیر مستقل کو ایک دوسرے سے الگ کر کے اپنی رائے قائم کرے۔
دنیا کا نظام ابدی حقائق پر مبنی ہے، نہ کہ وقتی قسم کی باتوں پر۔ اس سلسلے میں ایک درست انگریزی مقولہ ہے جس میں اسی فطری قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ — اس دنیامیں ہمیشہ سچائی کو بقا ملتی ہے:
let truth prevail
کسی آدمی کے دانش مند ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو جانے، جو کہ ایک اٹل قانون ہے، اور کبھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اس فطری قانون کو جاننے کے بعد جو رائے بنے گی، وہ ایک دانش مندانہ رائے ہوگی، اور اس فطری قانون کو جانے بغیر جو رائے بنے، وہ ایک سطحی رائے ہوگی۔ جو گریمر کے اعتبار سے تو صحیح ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سےایسی رائے کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔
مثال کے طور پر انڈیا جیسا ایک ملک ہو یا امریکا جیسا ایک ملک۔ دونوں جمہوریت کے زمانے کے ملک ہیں۔ دونوں میں الیکشن کے ذریعہ کوئی فرد حکومت کا عہدہ حاصل کرتا ہے۔ مگر اس عہدیدار کی کارکردگی کی مدت صرف چند سال تک محدود ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ قدیم زمانے کی طرح مطلق العنان بادشاہ (despotic king) نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک متفقہ دستور (constitution) کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا منتخب صدر یا وزیر اعظم خواہ بولنے کے لیے کچھ بھی بولے، لیکن عملاً جو چیز ملک میں قائم ہوگی، وہ دستور اور جمہوریت ہے، نہ کہ کسی وقتی عہدیدار کا ایک قول۔
اس طرح کے موضوعات پر جو لوگ لکھیں یا بولیں، ان کو زندگی کے اس قانون کو جاننا چاہیے، اور اسی قانون کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر وہ اس محکم قانون کو جانے بغیر لکھیں یا بولیں تو ان کے لکھنے اور بولنے کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ ایسی بات کو جو شخص لکھے، وہ اپنے وقت کو ضائع کررہا ہے، اور جو پڑھے، وہ بھی اپنے وقت کو ضائع کررہا ہے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف ایسی بات لکھے یا بولے جو حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز ہو۔ ورنہ ایسی بات لکھنے یا بولنے سے باز رہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2317)۔