خدائی منصوبہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے فرقان (قرآن) کو اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے آگاہ کرنے والا بنے (25:1)۔اس آیت کے مطابق اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ قرآن تمام دنیا کے انسانوں تک پہنچے۔ اس کی جو صورت مقرر کی گئی، وہ قرآن میں رسول کی زبان سے اس طرح بیان کی گئی ہے: اور یہ قرآن میری طرف وحی کیاگیا ہے تاکہ میں اس کو تم لوگوں تک پہنچاؤں اور جن کو یہ قرآن پہنچے وہ اس کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں (6:19)۔
یہ گویا ایک چین ڈسٹری بیوشن (chain distribution) کا معاملہ ہے۔ قرآن رسول کے ذریعہ صحابہ تک پہنچے، صحابہ تابعین تک پہنچائیں، تابعین تبع تابعین تک پہنچائیں۔ اس طرح اہلِ ایمان کی ہر نسل اپنے ہم زمانہ لوگوں تک پہنچاتی رہے۔ یہاں تک کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں تک قرآن پہنچ جائے۔موجودہ زمانہ کے مسلمان عام طورپر شکایت کی بولی بولتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف سازش کررہے ہیں۔ یہ ساری باتیں غیر متعلق ہیں۔ اہلِ ایمان پر فرض ہےکہ وہ اس قسم کی منفی باتوں کو چھوڑ دیں۔ وہ ہر شکایت کو اللہ کے حوالے کردیں اور اپنے آپ کو مکمل طورپر قرآن کی اشاعت کے کام میں لگا دیں۔ اصحابِ رسول اپنے زمانہ میں قرآن کے مقری بنے ہوئے تھے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانہ میں ہر مسلمان کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر بن جانا چاہئے۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ ہر مسلمان اپنے ساتھ مطبوعہ قرآن کے نسخے رکھے اور جس سے ملاقات ہو اس کو یہ کہہ کر پیش کردے :This is a divine gift for you
قرآن کو لوگوں کی قابل فہم زبان میں پھیلانا امت مسلمہ کا ایک لازمی فریضہ ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی کے بغیر امت مسلمہ کا امت مسلمہ ہونا مشتبہ ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی دوسرا عمل امت مسلمہ کے لیے اس فریضے کا بدل نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میں کوئی بھی عذر (excuse)اللہ رب العالمین کے یہاں قابل قبول ہونے والا نہیں۔