لمبی عمر
انسان ہمیشہ سے اس کا طالب رہا ہے کہ اس کو لمبی عمر حاصل ہو۔ اسی لیے اس موضوع پر ہمیشہ سب سے زیادہ ریسرچ کی گئی ہے۔ بادشاہ لوگ قدیم زمانے میں علم طب کی بہت زیادہ سرپرستی کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ علم طب ان کو لمبی عمر دے سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں میڈیکل سائنس کے شعبے میں سب سے زیادہ ریسرچ اسی موضوع پر ہورہی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اس کو لمبی عمر (longevity) حاصل ہو۔ مگر اس شعبے میں انسان کواب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل مسئلہ لمبی زندگی کا نہیں ہے، بلکہ زندگی کی کوالٹی (quality) کا ہے۔ بالفرض انسان کو لمبی عمر مل جائے، اور زندگی کی کوالٹی میں بہتری نہ ہو تو لمبی عمر کا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ حالت میں لمبی عمر انسان کے لیےصرف اس کے مسائل میں اضافہ کرے گی، وہ اس کے مسائل کو حل کرنے والی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے، پھر وہ نوجوانی کی عمر میں پہنچتا ہے۔ پھر وہ جوان ہوتا ہے۔ پھر وہ ادھیڑ عمر میں پہنچتا ہے، اس کے بعد وہ بوڑھا ہوجاتا ہے، اور اس کے بعد وہ بستر پر پڑجاتا ہے۔ اس مدت میں انسان مسلسل طور پر مختلف مسائل کی زد میں رہتا ہے: بیماری، حادثہ، بڑھاپا، وغیرہ۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ زندگی کی کوالٹی بڑھانے کا ہے، نہ کہ عمر کو لمبا کرنے کا۔
انسان اپنی زندگی میں جن مسائل سے دوچار ہوتا ہے،ان کا تعلق جسمانی زوال (degeneration) اور ڈی این اے (DNA) سے ہے۔ سائنٹفک ریسرچ کے مطابق، انسان کی پوری زندگی ڈی این اے سے کنٹرول ہوتی ہے، اور ڈی این اے ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ انسان پر بہرحال موت آتی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ موت کے بعد کی زندگی میں انسان اسی قانونِ حیات کا موضوع بنا رہے، جس کا موضوع وہ موت سے پہلے کی عمر میں ہوتا ہے، تو انسان کو نہ موت سے پہلے کی زندگی میں سکون حاصل ہوگا، اور نہ موت کے بعد کی زندگی میں۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اصل مسئلہ لمبی عمر کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ایک نیا جسم حاصل ہوجائے، جوجسمانی زوال سے پاک ہو۔ موجودہ جسمانی وجود کےرہتے ہوئے، لمبی عمر کا کوئی فائدہ نہ موت سے پہلے کے عرصہ حیات میں ہے، اور نہ موت کے بعد کے عرصہ حیات میں۔
اس مسئلے کا حل وہ ہے جس کو قرآن میں خلق جدید (ابراہیم :19، فاطر :16) کہا گیا ہے۔ خلق جدید کا مطلب ہے نئی تخلیق (new creation)۔ یعنی زوال سے پاک ایک نئے جسمانی وجود کا حاصل ہونا، اور اس قسم کی نئی تخلیق خالق کے سوا کسی اور کے قدرت میں نہیں۔ جو لوگ لمبی عمر چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ فَفِرُّوا إِلَى اللَّہِ (51:50) کے طریقے پر عمل کریں۔ یعنی زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرنا، وہ زیادہ سے زیادہ اللہ کو پکارنا، زیادہ سے زیادہ اللہ سے دعا کرنا تاکہ وہ ان کو مطلوب زندگی عطا کرے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کی زبان سے شکر کا ایک کلمہ ان الفاظ میں نکلے گا: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ یہاں حزن (suffering)کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو دنیا کی زندگی کو انسان کے لیے بے لذت بنا دیتی ہیں۔ اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو جسمانی اعتبار سے یا خارجی اعتبار سے موجودہ دنیا میں انسان کےلیے پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ انسان کی طلب کے اعتبار سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو حزن سے خالی زندگی حاصل ہوجائے۔ حزن کے ساتھ کوئی بھی چیز انسا ن کو خوشی دینے والی نہیں۔
جنت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من مات من أہل الجنة من صغیر أو کبیر یردون بنی ثلاثین فی الجنة لا یزیدون علیہا أبدا(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2562)۔ یعنی اہل جنت میں سے ہر شخص کی عمر تیس سال کردی جائے گی۔ خواہ موت کے وقت وہ اس سے زیادہ کا ہو یا کم کا۔ ان کی عمر اس سے زیادہ کبھی نہیں ہوگی۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں انسان کو اس کا وہ مطلوب مل جائے گا، جو وہ چاہتا تھا، لیکن وہ اُس کو اِس دنیا میں نہیں ملا۔ یعنی ہمیشہ کے لیے جوانی کی عمر۔ انسان صرف جوانی کی عمر میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ بھرپور زندگی گزار سکے۔ جوانی کی عمر ہر انسان کی سب سے زیادہ مطلوب عمر ہے۔ انسا ن کا یہ مطلوب موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں اس کو نہیں ملتا، لیکن موت کے بعد کے عرصہ حیات میں اس کو یہ مطلوب اعلیٰ صورت میں حاصل ہوجائے گا۔
جنت کے بارے میں ایک لمبی حدیث آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: إذا صار أہل الجنة إلى الجنة ..... أتی بالموت حتى یجعل بین الجنة والنار، ثم یذبح، ثم ینادی مناد: یا أہل الجنة لا موت..... فیزداد أہل الجنة فرحا إلى فرحہم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2850)۔ یعنی جب جنت والے جنت کی طرف چلے جائیں گے .....تو موت کو جنت اور دوزخ کے درمیان لایا جائے گا پھر اسے ذبح کیا جائے گا پھر ایک پکارنے والا پکارے گا اے جنت والو اب موت نہیں ہے..... اس سے اہل جنت کی خوشی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
انسان پیدائشی طور پر ایک مطلوب دنیا کا تصور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی ساری امنگیں، اور اس کی ساری دوڑ دھوپ موجودہ دنیا میں اس مطلوب کو حاصل کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ وہ مختلف چیزوں کے بارے میں یہ رائے بناتا ہے کہ وہ مل جائے تو اس کی مطلوب دنیا اس کو حاصل ہوجائے گی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان نے پوری کوشش کی، اور اس کے بعد اس چیز کو پالیا جس کو وہ پانا چاہتا تھا، تاہم آخر میں اس نے دیکھا کہ بظاہر مطلوب کو پانے کے باوجود اس کو خوشی حاصل نہ ہوسکی۔ مثلا ً اس نے مال حاصل کرنا چاہا، اور لمبی کوشش کے بعد اس نے مال حاصل کرلیا، لیکن مال اس کو اس کی مطلوب خوشی نہ دے سکا۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے سیاسی اقتدار کو اپنا نشانہ بنایا، اور آخرکار سیاسی اقتدار حاصل کرلیا، لیکن اب اس کو معلوم ہوا کہ سیاسی اقتدار اس کو وہ چیز نہیں دے رہا ہے جو اس کا اصل مطلوب تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی کامیابی صرف یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو اور پھر جنت کو پالے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کو حقیقی خوشی دینے والی نہیں۔