خالص ایمان

ایمان کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُونَ (6:82)۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نہیں ملایا انھوں نے اپنے ایمان میں کوئی ظلم، انھیں کے لئے امن ہے اور وہی سیدھی راہ پر ہیں۔ایمان میں ملاوٹ سے مراد یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی ایسے عقیدہ یا علم کو شامل کیا جائے جو ایمان کے منافی (inconsistent) ہو۔

ظلم کے اصل معنی ہے مجاوزة الحق او مجاوزة الحدیعنی حق یا حد سے تجاوز کرنا۔ مثلا ً ایمان باللہ کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ کچھ ہستیاں اللہ سے خصوصی قربت رکھتی ہیں، اور ان کی بات اللہ کے یہاں مانی جاتی ہے۔ لیکن اس آیت میں ایمان کے ساتھ ملاوٹ کا لفظ نہایت وسیع معنی میں ہے۔ اس میں ہر وہ چیز آسکتی ہے جو عقیدہ توحید سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔

توحید میں یہ ملاوٹ زیادہ تر مضاہات (التوبۃ:30)کی بنا پر ہوتی ہے، اور مضاہات کا مطلب ہے نقل کرنا (to imitate)۔ یہ مضاہات ہمیشہ ماحول کے اثر سے ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے سیکولر حلقوں میں سیاسی فکر کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے، اس بنا پر موجودہ زمانے میں سیاسی مضاہات کا ایک ظاہرہ پیدا ہوگیا ہے۔قرآن میں حُکم (یوسف:40)کا لفظ فوق فطری حکم کے معنی میں آیا ہے۔ مگر مضاہات کرکے کچھ مسلمانوں نے اس کو سیاسی حکم کے معنی میں لے لیا، اور اس سے ان لوگوں نے یہ مطلب نکالا کہ مسلمانوں کا مشن زمین پر خدا کی سیاسی حکومت قائم کرنا ہے۔ یہ مضاہات عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے۔

یہ مضاہات جس کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے، اس کی کوئی ایک صورت نہیں ہے۔ ہر زمانے میں اس کی نئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مضاہات کو پہچانیں، اور اہل اسلام کو اس سے باخبر کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom