حفاظت دین

قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (15:9)۔ یعنی ہم نے اس یاد دہانی کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں عام طور پر مفسرین نے ذکر سے قرآن کو مراد لیا ہے۔ لیکن توسیعی معنی میں اس سے مراد پورا دین ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے دین اسلام کو نہ صرف نازل کیا، بلکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اپنے اوپر لے لی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ کامل معنوں میں پورا ہوا۔ دین اسلام پوری طرح ایک محفوظ دین ہے۔ انسان کے لیے بھٹکنے کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، لیکن جو شخص سنجیدگی کے ساتھ دین حق کو جاننا چاہے اس کے لیےکوئی رکاوٹ نہیں۔

دین اسلام کی حفاظت کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس کی حفاظت ضرورت کی بات ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد اللہ کوئی نبی بھیجنے والا نہیں۔ اس واقعہ کا تقاضا تھا کہ دین اسلام کو ایک محفوظ دین بنا دیا جائے۔ کیوں کہ اللہ کا دین اللہ کے نبی کے ذریعہ آنے والی ہدایت کو جاننے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ پیغمبر کی غیر موجودگی میں اللہ کا دین پیغمبر کا بدل ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ نے جب ختم نبوت کا فیصلہ فرمایا تو اسی وقت یہ بھی فیصلہ فرمادیا کہ آخری نبی کے ذریعہ بھیجا جانے والا دین ہمیشہ اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بعد کے انسانوں کے لیے صراط مستقیم کو جاننے کا کوئی مستند ذریعہ موجود نہ ہوتا۔

اس صورت حال کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی حامل امت سے ہے۔ دین محفوظ ہونے کے باوجود یہ ضرورت باقی ہے کہ کوئی انسانی گروہ ہو، جو ہر دور میں دین کی اشاعت کا کام کرتا رہے۔یہ گروہ امت مسلمہ ہے، جس کو پرامن دعوت الی اللہ کا یہ کام بلاتوقف قیامت تک انجام دینا ہے۔ معاملے کا یہ پہلو امت مسلمہ کی ذمہ داری کو بڑھادیتا ہے۔ یعنی امت مسلمہ کو بعد کے زمانے میں دعوت کا وہی کام انجام دینا ہے، جو پیغمبر نے اپنے زمانے میں انجام دیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom