حکم اللہ کا
قرآن میں بتایا گیا ہے: إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (12:40)۔ یعنی حکم صرف اللہ کے لئے ہے۔ حکم کے لفظی معنی اقتدار کے ہیں۔ اس آیت میں حکم کا مطلب کائناتی اقتدار ہے۔ یعنی اللہ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے اوروہی پورے عالم کو کنٹرول کررہا ہے۔ اس آیت میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے جو بالفعل مکمل طور پر موجود ہے۔ یعنی کائنات ہر اعتبار سے اللہ رب العالمین کے زیر حکم ہے۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر اللہ کے لیے کامل سرنڈر (total surrender) کا مزاج بنتا ہے۔
مگرموجودہ زمانے میں کچھ مسلم رہنماؤں نے حکم کا مطلب سیاسی حکم یا سیاسی اقتدار لے لیا۔ اس طرح مسلمانوں کا مشن یہ قرار پایا کہ وہ تمام انسانوں کے اوپر خدا کی سیاسی حکومت قائم کریں۔ چوں کہ عملاً سارے انسانوں کے درمیان خدا کی یا اسلام کی سیاسی حکومت قائم نہ تھی، اس لیے اہل اسلام کا پہلا نشانہ یہ قرار پایا کہ وہ موجود اربابِ حکومت سے ٹکراؤ کرکے ان کو سیاسی اقتدار سے بےدخل کریں تاکہ تمام قوموں کے اوپر خدا کی سیاسی حکومت قائم کی جاسکے۔
’’حکم اللہ کا‘‘ کے عقیدے کا تقاضا یہ تھا کہ اہل ایمان ہر لمحہ تواضع کی نفسیات میں جئیں، وہ ہروقت اپنے آپ کو اللہ کا بندہ سمجھ کر زندگی گزاریں، وہ اپنے ہر قول اور فعل میں اللہ کو یاد رکھیں، ان کا ہر رویہ عہد وانصاف کا رویہ ہو،وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جوابدہ (accountable) سمجھیں، ان کی زندگی پوری کی پوری اللہ کے رنگ میں رنگ جائے۔
لیکن حکم کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اہل اقتدار کے مقابلے میں سیاسی اپوزیشن (political opposition) کا رول ادا کرنے لگے۔ کچھ مسلمان فکری اپوزیشن کے اعتبار سے اور کچھ مسلمان عملی اپوزیشن کے اعتبار سے۔ یہ بات اسلام کے نام پر غیر اسلام کو اختیار کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو مسلمانوں کو اسلام کے نام پر اسلام سے دور کردینے والا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے نفرت اور تشدد کے سوا کچھ اور چیز نہ ہوگی۔