اسلامی جہاد
جہاد کا لفظ جُہد سے بنا ہے۔ ا س کا معنی ہےکوشش (struggle)۔ کسی تعمیری مقصد کے لیے بھرپور کوشش کرنے کو عربی زبان میں جہد یا جہاد کہا جاتا ہے۔ جہاد یا جہد کا لفظ اصلاً پر امن جدو جہد کے لیے آتا ہے۔ اس لفظ کا براہ راست طور پر جنگ و قتال سے کوئی تعلق نہیں۔جہاد میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی کامل جدو جہد (utmost struggle)۔
قرآن میں جہاد کا مادہ 35 بار استعمال ہوا ہے۔ہر بار اس لفظ کا استعمال پرامن کوشش کے معنی میں ہے۔ جنگ کے لیے قرآن میں قتال کا لفظ آیا ہے۔ اور پرامن جدو جہد کے لیے جہاد کا لفظ۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (25:52)۔ اور اس سے جِہادِ کبیر کرو، قرآن کے ذریعے۔یعنی لوگوں کے درمیان قرآن کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیےبڑا جہاد کرو۔
حدیث میں بھی جہاد کا یہی مفہوم آیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:الجہاد ماض منذ بعثنی اللہ إلى أن یقاتل آخر أمتی الدجال، لا یبطلہ جور جائر، ولا عدل عادل(سنن ابو داوود، حدیث نمبر2532)۔ یعنی جہاد جاری ہے اس وقت سے جب کہ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا، اس وقت تک، جب تک کہ میری امت کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا۔ ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل اس کو موقوف نہیں کرے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جہاد کواگر قتال کے معنی میں لیا جائے تو یہ بات قابل فہم نہ ہوگی۔ کیوں کہ ظالم کے ساتھ قتال کا تو جوازہوسکتا ہے لیکن عادل کے ساتھ قتال کا کوئی جواز نہیں۔ اس بنا پر یہاں جہاد کو ایسی پرامن کوشش کے معنی میں لیا جائے گا جو ہر حال میں جاری رہےگا۔ اور اس سے مراد پرامن دعوتی جہاد کی کوشش ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاد ایک ایسی پرامن جدو جہد ہے جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہتی ہے۔ اس سے مراد دعوت اور اصلاح کی جدو جہد ہے۔ دعوت عمومی دائرے میں، اور اصلاح امتِ مسلمہ کے دائرے میں۔ یہ پرامن جہاد ایک ایسی ضرورت ہے جو نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ حال اس کو ساقط کرنے والی نہیں۔
اس کے برعکس،قتال ایک وقتی چیز ہے۔ قتال کی ضرورت ہمیشہ دفاع (defence) کے وقت پیش آتی ہے۔ جب فریقِ مخالف کی طرف سے قتال روک دیا جائے تو اہل اسلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ خود سے کسی کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ اس سلسلے میں قرآن میں واضح آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ (2:190)۔ یعنی اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو لڑتے ہیں تم سے۔ اور زیادتی نہ کرو۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کے پہلے حصے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اہل اسلام صرف ان کے ساتھ جنگ کرسکتے ہیں، جو ان کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ آیت کے دوسرے حصّے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل اسلام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خود اپنی طرف سے جنگ کا آغاز کریں۔ جہاد بمعنی قتال کے بارے میں فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جہاد بمعنی قتال بذاتِ خود مقصود نہیں ہے، بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بطور وسیلہ مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تین اقوال نقل کیے جاتے ہیں:
1۔ ینقسم الجہاد فی سبیل اللہ إلى قسمین:الأول جہاد الدعوة إلى اللہ بین الناس....وہذا أعظم أنواع الجہاد، وأعظم من قام بہ الأنبیاء والرسل، وہو جہاد حسن لذاتہ، وہو مقصد بعثة الأنبیاء والرسل....الثانی القتال فی سبیل اللہ ....وہذا الجہاد حسن لغیرہ(موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن إبراہیم بن عبد اللہ التویجری،5/449-50)۔ یعنی جہاد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک،لوگوں کے درمیان دعوت الی اللہ کا جہاد.... یہ سب سے اعلی درجہ کا جہاد ہے، اور انبیاء کے کاموں میں سب سے اعلی کام۔ یہ جہاد بذات خود حسن ہے۔ انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا مقصد یہی ہے.... دوسرا، قتال فی سبیل اللہ ہے....یہ جہاد (بمعنی القتال) برائے جہاد مطلوب نہیں، بلکہ وہ ایک اور مقصد کے لیے بطور وسیلہ مطلوب ہوتا ہے۔
2۔ مسجد نبوی کے سابق مدرس عطیہ محمد سالم (وفات:1999)لکھتے ہیں: الجہاد وسیلة ولیس غایة....أن القتال فی الإسلام لیس غایة لذاتہ، ولکنہ وسیلة للوصول إلى غایة(شرح الأربعین النوویة، درس نمبر 85)۔ جہاد (بمعنی قتال) ایک وسیلہ ہے، وہ بذاتِ خود مقصود نہیں ہے....اسلام میں قتال بذاتِ خود مقصود نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیلہ ہے، جو ایک اور مقصد کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
3۔ القتال مما یدل على أنہ غیر مقصود فی ذاتہ وإنما ہو مقصود لغیرہ(محمد بن عبد السلام الأنصاری،القتال لیس غایة الجہاد [www.assakina.com])۔یعنی قتال شریعت میں بذاتِ خود مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ کسی اور مقصد کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں: أما حین تکون تلک الغایات یمکن التوصل إلیہا بغیر القتال فلا شک أنہ حینئذ یعتبر الإقدام علیہ غیر مأمور بہ۔یعنی ایسے مقاصد جن کا حصول قتال کے بغیر ممکن ہو، تو یقیناً اس وقت ا قدام (جنگ)کرنا ایساہوگا، جس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بمعنی پرامن دعوت بلاانقطاع ہر حال میں جاری رہتا ہے۔ لیکن قتال صرف اس وقت ہے جب کہ فریق ثانی کی جارحیت کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آجائے۔
انسان کو استثنائی ذہن دیاگیا اور پھر اس کو آزادی عطا کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ انسان اپنے ذہن کو استعمال کرے، اور پھر وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑا ہو۔ مخلوقات سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد ہے۔ پوری کائنات اللہ رب العالمین کی مجبورانہ حمد کررہی ہے۔ مگر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، آزادانہ طورپر خدائی سچائی کو دریافت کرے، اور کسی جبر کے بغیر اس پر کھڑا ہو۔