غزوۂ ہند
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن ثوبان قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:عصابتان من أمتی أحرزہما اللہ من النار:عصابة تغزو الہند، وعصابة تکون مع عیسى ابن مریم علیہما السلام (سنن النسائی، حدیث نمبر 3175، مسند احمد، حدیث نمبر 22396)۔ یعنی ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ ہیں، جن کو اللہ نے آگ سے بچا لیا ہے۔ ایک گروہ جو ہند کا غزوہ کرے، اور دوسرا گروہ وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔
غزوہ کا لفظی مطلب ہے قصد کرنا، ارادہ کرنا۔غزوہ کا لفظ اصل میں پرامن سفر کے معنی میں ہے۔ البتہ دوسرے الفاظ کی طرح ’’غزوہ‘‘ میں بھی استعمال کے اعتبار سے معانی کا اضافہ ہوجاتاہے۔ جیسے اردو میں ’’چلنا ‘‘ اصلاً پرامن سفر کے لیے ہے۔ لیکن اگر یہ کہاجائے کہ ہم دشمن سے مقابلہ کے لیے چلے، تو یہاں چلنا برائے جنگ ہوجائے گا۔
حدیث میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی گروہ ہندوستانی علاقے میں اسلام کی اشاعت کے لیے سفر کرکے آئے گا۔ مثلاً ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں ابتدائی مسلمانوں کے ایک قافلہ کا سفر کرکے جنوبی ہند (مالا بار) میں آنا، اور یہاں اسلام کی اشاعت کا کام کر نا، یا عباسی دور میں صوفیاء کی جماعت کا ایران کے علاقے سے چل کر ہندوستان کے علاقے میں آنا، اور یہاں اسلام کی پر امن اشاعت کرنا۔ اس حدیث ِرسول میں جنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ اس حدیث کے حوالے سے ہندوستان میں جنگ چھیڑنے کا کوئی جواز نہیں۔
عیسیٰ ابن مریم کے حوالہ میں نہ جنگ کا ذکر ہے، اور نہ ہندوستان کا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کسی علاقے میں عیسیٰ ابن مریم کا دعوتی مشن شروع ہوگا، اور امت مسلمہ کا ایک گروہ اس پر امن مشن کا ساتھ دے گا۔