خوف اور حکمت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:رأس الحکمة مخافة اللہ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر730)۔ یعنی حکمت کا سرا اللہ کا خوف ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیز ہے جس کو وزڈم کہاجاتا ہے۔ یہاں یہ سوال ہے کہ اللہ کے خوف سےانسان کے اندر وزڈم کی صفت کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ خوفِ خدا اور وزڈم میں کیا تعلق ہے۔ اس حدیث رسول میں جاننے کی جو بات ہے وہ یہی ہے۔
وزڈم کیا ہے۔ وزڈم یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی معاملے کے غیر متعلق پہلوؤں (irrelevant aspects)سے الگ ہوکر سوچے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ معاملے کے بارے میں پوری طرح موضوعی رائے (objective opinion) تک پہنچ جائے۔ وہ معاملے کےبارے میں ایز اٹ از (as it is) انداز میں سوچ سکے۔ اس صلاحیت کی بنا پر آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ معاملے کے بارے میں وہی رائے قائم کرے، جو از روئے واقعہ ہونا چاہیے۔ اس عین درست رائے کا نام وزڈم ہے۔
انسان عام طور پر مختلف قسم کے غیر متعلق اثرات کے تحت سوچتا ہے۔ مثلاً غصہ، نفرت، احساس برتری، جذباتیت، انانیت، وغیرہ۔ یہ چیزیں آدمی کی رائےکو متاثر رائے (biased opinion) بنادیتی ہیں۔ اس طرح کی غیر درست سوچ آدمی کو غیر حکیمانہ سوچ والا انسان بنادیتی ہے۔
اگر واقعی معنی میں کسی کے اندر اللہ کا خوف ہو تو وہ آدمی کی شخصیت کو نہایت گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر نہایت گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ آپ (introspection) کا مزاج پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح خوف خدا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر تمام غیر متعلق عوامل ختم ہوجاتے ہیں۔ اور وہ پورے معنوں میں انسانِ اصلی (man cut-to-size) بن جاتا ہے۔ ایسا انسان اپنی فطرت پر قائم ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں حکمت (wisdom)کہا گیا ہے۔
یہی وہ صفت ہے جس کا ثبوت اصحاب رسول نے صلح حدیبیہ کے وقت دیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَى رَسُولِہِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَى وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا (48:26)۔ یعنی جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر، اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
While those who deny the truth made it a prestige issue [ in their hearts ], the bigotry of the days of ignorance, God sent His tranquility down on to His Messenger and believers and firmly established in them the principle of righteousness, for they were indeed better entitled to it and more worthy of it. God has full knowledge of all things.
صلح حدیبیہ کا معاملہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں پیش آیا، وہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ فریق ثانی نے اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو اپنے لیے عزت کا سوال بنا لیا۔ اس بنا پر وہ اس معاملے میں بے حد جذباتی ہوگیے۔ اس کے برعکس، اصحاب رسول کے اندر متقیانہ مزاج تھا۔انھوں نے اپنے تحمل کو باقی رکھا۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوگیے کہ وہ اس معاملے کو خالص عقل (wisdom) کے تحت سوچیں۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوف خدا سے کس طرح آدمی کے اندر وزڈم کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
خدا کے دین میں ذمہ داری بقدر استطاعت کا اصول ہے۔ استطاعت سے زیادہ کا مکلّف بنانا
اللہ کا طریقہ نہیں۔ یہ اصول فرد (individual) کے لئے بھی ہے، اور سوسائٹی کے لئے بھی۔