خالی از معنی کلام
قرآن کی ایک آیت میں ایک کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ(4:114)۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔ بھلائی والی سرگوشی صرف اس کی ہے جو صدقہ کرنے کو کہے یا کسی نیک کام کے لئے کہے یا لوگوں میں صلح کرانے کے لئے کہے۔
نجویٰ کا لفظی مطلب سرگوشی (whisper) ہے۔ لیکن یہاں وسیع تر معنی میں اس سے مراد انسانی کلام ہے۔ اس آیت میں اس انسانی کلام کو خیر سے خالی کلام کہا گیا ہے، جو معنویت سے خالی ہو۔ جس میں الفاظ تو بہت ہوں لیکن اس میں معانی کا خزانہ (content) موجود نہ ہو۔ کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ کلام جو گہرے غور وفکر اور ذمہ داری کے احساس کے تحت بولا جائے۔ ایسا کلام بامعنی کلام ہوگا۔ اس سے سننے والے کو حکمت (wisdom) ملے گی۔ اس کے اندر زیر بحث مسئلے کا صحیح تجزیہ ہوگا۔ وہ کلام برائے کلام کا مصداق نہ ہوگا، بلکہ کلام برائے خیر کا مصداق ہوگا۔ ایسا کلام بلاشبہ ایک مطلوب کلام ہے۔ وہ بولنے والے کے لیے بھی سعادت کا ذریعہ ہے، اور سننے والےکے لیے بھی سعادت کا ذریعہ۔
دوسرا کلام وہ ہے جس میں الفاظ کی کثرت ہو لیکن معانی کی قلت۔ جس سے آدمی کو کوئی حکمت کی بات معلوم نہ ہو۔ جو کلام برائے کلام کا مصداق ہو۔ جس کو سننے کے بعد آدمی کو کوئی ٹیک اوے (take away) نہ ملے۔
کلام ایک امانت ہے۔ بولنے والے کو چاہیے کہ وہ بولنے سے پہلے سوچے اور بولنے کے بعد اپنا محاسبہ کرے۔کلام ایک اعلی انسانی سرگرمی ہے۔ کلام کو اس کے تقاضے کے مطابق ہونا چاہیے۔ مطلوب کلام وہ ہے جس کو پیش کرنے سے پہلے بولنے والے نے اس پر ضروری غور و فکر کیا ہو۔ جس کو بولنے سے پہلے بولنے والے نے ضروری ہوم ورک (homework) کیا ہو۔