زوالِ امت

امت کا زوال کیا ہے، حدیثوں میں پیشگی طور پر اس کے بارے میں بتا دیا گیا ہے۔ ان احادیث کو عام طور پر احادیث فتن کہا جاتا ہے۔ احادیث فتن دراصل احادیث برائے زوال امت ہی کا دوسرا نام ہے۔ دور فتنہ سے مراد امت کا دور زوال ہے۔ یہ زوال فطرت کے قانون کے تحت آتا ہے، اور کسی امت کااس معاملے میں استثنا نہیں۔

امتِ موسی کو امت افضل کہا گیا تھا۔ مگر ان پر زوال آیا۔ اسی طرح امت محمد کو خیر امت کہا گیا، لیکن فطرت کے قانون کے مطابق، خیر امت پر بھی زوال کا دور آنا یقینی ہے۔ امت پر دورِ زوال آنے کا مطلب کیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ طول امد کے نتیجہ میں افراد امت کے اندر قساوت کا دور آجانا (57:16)۔ یعنی امت کی بعد کی نسلوں میں افراد کے اندر دین کے بارے میں حساسیت ختم ہوجائے، اور اس بنا پر وہ دین کے قشر (shell)کو دین کا مغز (kernel)سمجھنے لگے۔ حدیث میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ بعد کے لوگوں میں تم دیکھو گے کہ ان کی مسجدوں میں نمازیوں کی بھیڑ ہوگی، لیکن ان کے دل ہدایت سے خالی ہوں گے (مَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ، وَهِيَ ‌خَرَابٌ ‌مِنَ ‌الْهُدَى)شعب الایمان للبیہقی،حدیث نمبر 1908۔

احادیث کے مطالعے سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کا زوال پچھلی امتوں سے بھی زیادہ ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں مادی ترقیاں ہوں گی، مال کی فراوانی ہوگی، اور لوگوں کا یہ حال ہوجائے گا: وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَان (صحیح مسلم، حدیث نمبر 8)۔یعنی تم یہ دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگےبدن والے، غریب، بکریوں کے چرانے والے، اونچی عمارتوں پر فخر کریں گے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو لوگ غربت کی حالت میں ہوں گے، وہی لوگ غربت کے باوجود بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے، بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں یہ حال تھا کہ بادشاہ لوگ بڑے بڑے محل بنایا کرتے تھے، لیکن بعد کے زمانے میں مال کی اتنی زیادہ فراوانی ہوگی کہ عام لوگ بھی شاہی ساز و سامان کے حامل ہو جائیں گے۔

 احادیثِ فتن کی ان باتوں کو میں ا س وقت سمجھا جب کہ میں پہلی بار امریکا گیا۔ وہاں میرا قیام کیلی فورنیا میں تھا۔ ایک دن ایک نوجوان مجھ کو اپنی نئی بڑی گاڑی پر لے گئے تاکہ مجھ کو وہاں کا ڈزنی لینڈ (Disneyland) دکھائیں۔ میں نے نوجوان سے پوچھا کہ آپ تو جلد ہی امریکا آئے ہیں، پھر آپ کے لیے کیسے ممکن ہوا کہ آپ ہر قسم کے اعلیٰ سامان اپنے لیے حاصل کرلیں۔

انھوں نے جواب دیا کہ یہ امریکا کے اقتصادی سسٹم کا کرشمہ ہے۔ آپ امریکا آئیں، اور یہاں آپ کے لیے ایک بڑی کمپنی میں جاب حاصل ہوجائے تو اس کے بعد ہر چیز آپ لون (loan) کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں، اور اس کی ادائیگی ہر ماہ آپ کی سیلری سے کٹ کر براہ راست لون کمپنی کے اکاؤنٹ میں جاتی رہے گی۔ اس سسٹم کے تحت آپ یہاں ہر چیز حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلا ماڈرن اسٹائل کے شاندار مکان، بڑی گاڑی، فریج اور واشنگ مشین، موبائل فون، کمپیوٹر و لیپ ٹاپ، وغیرہ۔حتی کہ عیش و عشرت کے وہ سامان جن کا پہلے زمانے میں بادشاہ لوگ بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ یہاں قرض کے ذریعہ ایک عام آدمی حاصل کرسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک اچھا جاب موجود ہو۔

اس کلچر نے جو سب سے بڑی برائی پیدا کی، وہ ہے جنون کی حد تک ہائی اسٹیٹس کا حصول، اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے سےپس و پیش نہ کرنا۔ یہ کلچر پہلے اعلیٰ ترقی یافتہ ملکوں میں شروع ہوا، اب دنیا کے تقریباًہر ملک میں اس کا رواج ہو چکا ہے۔ اس رواج کا نتیجہ ہے کہ آج كے اس مادی دور میں اگرچہ ایک مذہبی انسان خدا کو اپنا معبود مانتا ہے، لیکن عملاً اس کا زیادہ بڑا کنسرن مادی اعتبار سےہائی اسٹیٹس کا حصول ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذہبی لوگوں نے اپنی مادہ پرستی کے لیے ایسے طریقےاختیار کرلیے ہیں، جو بظاہر دینی عمل لگتے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثلاً عالیشان مسجدوں کی تعمیر،پیغام نکاح کی تقریب، رمضان میں انواع و اقسام کے کھانے کی دھوم، وغیرہ۔

ظاہری دینداری کے اس کلچر کا سبب ہے کہ لوگوں نے دین کے مغز کو چھوڑ کر قشر کو اپنااصل دین سمجھ لیا ہے۔ایک انسان بظاہر مذہبی نظر آتا ہے،مگر اس کا دل تقوی اورخشوع سے خالی ہوتا ہے۔کیوں کہ مغز دین کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کے اعتبار سے قربانی دینی پڑتی ہے، یعنی خواہشاتِ نفس کی قربانی۔ اس كے برعكس،قشر کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بڑی قربانی کےبغیرپیسہ کے ذریعہ بڑی آسانی سےحاصل کیا جاسکتا ہے۔ 

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom