ہدایت کا قانونِ فطرت
فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَاللهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (2:213)۔ یعنی، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ جو شخص خدا کے قانونِ فطرت کو دریافت کرے، اور اس کو اپنی زندگی میں پوری صدق دلی (sincerity)سے اپنا لے، وہ صراطِ مستقیم کے لیے اللہ کی مدد کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہوتی، جو اس کو صراط مستقیم سے ہٹا دے، اور صراط مستقیم پر قائم رہنا، اس دنیا میں کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔
یہی وہ مقام ہے، جس کو حدیث میں تمثیل کی زبان میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:میرا بندہ کسی چیز کے ذریعے میرا قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے ان اعمال سے زیادہ محبوب ہو، جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں۔ پھر میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ یہاں تک کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے(كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا)اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے، تو میں پناہ دیتا ہوں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6502)۔
صراط مستقیم کیا ہے۔ صراطِ مستقیم یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے اپنا سفر طے کرنا۔ یہ راستہ ہمیشہ وہ ہوتا ہے، جو خود غرضی سے پاک ہوتا ہے، جو تعصب سے پاک ہوتا ہے، غلو اور شدت پسندی سے پاک ہوتا ہے،جو منفی سوچ سے پاک ہوتا ہے۔اس سے آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نوپرابلم پرسن بنالے اور معرفت ِ خداوندی میں جینے لگے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ کِبرکی نفسیات سے پوری طرح پاک ہو۔ اس کے اندر خدا کے لیے بھی پاک جذبات ہوں، انسانوں کے لیے بھی پاک جذبات ہوں۔ اس سوچ کو دوسرے الفاظ میں مبنی برتزکیہ سوچ کہہ سکتے ہیں۔