دین کی سیاسی تعبیر

بیسویں صدی میں مسلمان نئے حالات سے دو چار ہوئے۔ان کا ایمپائر،مثلاً مغل ایمپائر اور عثمانی ایمپائر ٹوٹ گیا۔مسلمانوں کے اوپر ہر اعتبار سے مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوگیا۔ مغربی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں، اور عملاً سارے عالم پر چھاگئیں، جن میں مسلم قومیں بھی شامل تھیں۔

یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیےایک سیاسی چیلنج بنی ہوئی تھی۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر سیاسی رد عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں کارل مارکس کا نظریۂ تاریخ بڑے پیمانے پر پھیلا۔ کارل مارکس نے جو نظریۂ تاریخ پیش کیا، اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس نے تاریخ کی ایک مادی تعبیر پیش کی، جس کو مادی تعبیرِ تاریخ (material interpretation of history) کہا جا تا ہے۔ 1917 میں جب کارل مارکس کے پیروؤں (کمیونسٹ پارٹی)کو روس میں حکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو اس کے بعد مارکسی فلسفہ ساری دنیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

ان حالات کے زیرِ اثر مسلم دنیا میں ایک ظاہرہ پیدا ہوا۔ یہ ظاہرہ زیادہ تر زمانی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کو وقت کے معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لیے اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation of Islam) پیش کرنا شروع کیا۔

یہ وہی ظاہرہ ہے جس کو حدیث میں اتباعِ یہود (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3456) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس حدیث میں یہود کا اتباع سے مراد، زوال یافتہ امت کا اتباع ہے۔ دورِ زوال میں یہود کے علما نے اپنی تشریحات کو عملاً موسوی شریعت کی حیثیت دے دی۔یعنی انھوں نے علما کی آراء پر مشتمل مجموعہ ٔ احکام تیار کیا، اور دینِ موسیٰ کی جگہ ان مجموعۂ احکام کودین کا لیبل لگا کر حقیقی خدائی دین کی مانند ان کا چرچا کرنے لگے۔ چنانچہ بعد کے زمانے میں یہودیت کا جو ورزن (version) تیار ہوا وہ تمام ترقوانین (laws) پر مبنی تھا۔یہودیت کے اس ورزن میں معرفت اور دعوت جیسی چیزیں تمام تر حذف ہوگئیں۔یہی واقعہ امت مسلمہ کے درمیان پیش آیا۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے علما اور رہنماکے یہاں جس دین کا چرچا ہے، اس میں معرفت اور دعوت جیسی اصل تعلیمات حذف ہوگئی ہیں، اس کے بجائے سارا زور ظاہری قوانین اور احکام پر دیا جارہا ہے، جس کو بطور خود وہ اسلامی نظام کا نام دیتے ہیں۔ اسلام کو سیاسی اور سماجی نظام کے طور پر پیش کرنا، ان کا واحد نشانہ بن گیا ہے، اور معرفت اور دعوت جیسی چیزیں ان کے یہاں بھی اسی طرح حذف ہوگئی ہیں، جس طرح وہ اس سے پہلے یہود کے یہاں حذف ہوگئی تھیں۔

اس انحراف کو مبنی بر نظام اسلام (system-based Islam) کہا جا سکتا ہے۔اس تصور دین کا نتیجہ ہے کہ امت میں ایک ابدی قسم کے ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ یہ ٹکراؤ ابتدائی طور پردوسروں کو اپنا حریف (rival) سمجھنے کی صورت میں شروع ہوتا ہے، اور پھر بڑھ کر تشدد اور جنگ اور خود کش بمباری تک پہنچ جاتا ہے۔

قرآن کو اگر کتابِ معرفت کے طور پر لیا جائے تواس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قرآن کی آیتوں میں تدبر کرو، قرآن کے ذریعے خالق کی معرفت حاصل کرو، اور پھر خالق کی معرفت میں جینے والے بن جاؤ،یعنی وہ انسان جس کو قرآن میں ربانی انسان(3:79)کہا گیا ہے۔گویا قرآن اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے ہدایت خداوندی کی پیروی (following)کا نام ہے۔ مگر قرآن کی نظامی یا قانونی تعبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن عملی نفاذ (implementation) کی کتاب بن گیا۔ اب امت کا نشانہ یہ قرار پایا کہ وہ موجودہ قانونی اور سیاسی نظام کو لڑکر بدلے، اور اس کی جگہ وہ قانونی اور سیاسی نظام نافذ کرے جس کو بطور خود اس نے اسلامی نظام کا درجہ دےد یا ہے۔

بڑھاپے کا دور

بڑھاپے کا دور کسی انسان کے لیے اس کی زندگی کا سب سے آخری دور ہے۔ یہ دور اس بات کا احساس دلانے کے لیے ہے کہ تکلیف انسان کے لیے کتنی زیادہ ناقابلِ برداشت ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom