آئیڈیالوجی کی طاقت
سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش سے کہا کہ ایک کلمہ یعنی لاالہ الا اللہ کا اقرار کرلو ساری دنیا تمہاری ہوجائے گی۔روایت کے الفاظ یہ ہیں :كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِيهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِينُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ. قَالَ: فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: نَعَمْ وَأَبِيكَ، وَعَشْرَ كَلِمَاتٍ، قَالَ: تَقُولُونَ: لَا إلَهَ إلَّا اللهُ، وَتَخْلَعُونَ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ417)۔ یعنی ایک کلمہ جو تم قبول کرو گے، اس کے ذریعے تم عرب پر غلبہ حاصل کرلوگے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔ ابوجہل نے کہا: ضرور، تیرے باپ کی قسم، اور دس کلمے۔ آپ نے کہا: تم کہو: لا الہ الااللہ، اور اللہ کے سوا جس کی عبادت کرتے ہو، اس کو چھوڑ دو۔
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں : يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللهُ تُفْلِحُوا وَتَمْلِكُوا بِهَا الْعَرَبَ وَتَذِلَّ لَكُمُ الْعَجَمُ وَإِذَا آمَنْتُمْ كُنْتُمْ مُلُوكًا فِي الْجَنَّةِ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد1، صفحہ168)۔ یعنی اے لوگو، لا الہ الا اللہ کہو، تم کامیاب ہوجاؤگے، اس کے ذریعے تم عرب پر غلبہ حاصل کرلوگے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے، اور جب تم ایمان لاؤگے تو تم جنت میں بادشاہ ہو گے۔
اسی طرح ایک حدیث میں مستقبل کی پیشین گوئی کے طور پر آیا ہے کہ اہل ایمان لاالہ الااللہ کہیں گے، اور قلعہ کا دروازہ ٹوٹ جائے گا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2920)۔
اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ نظریاتی غلبہ ہے۔ اس کی مثال اسلام کی بعد کی تاریخ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششوں سے عرب میں ایک فکری انقلاب جاری ہوا۔ موجودہ زمانے میں جس چیز کو ماڈرن سویلائزیشن کہا جاتا ہے، وہ اسی انقلابی عمل کی تکمیل ہے۔اسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے کہ اب اکیسویں صدی میں ’’کفر‘‘ اپنی نظریاتی طاقت کھوچکا ہے۔اور مسلمانوں کے سیاسی ایمپائر کے خاتمہ کے باوجود آج اسلام پوري دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بنا ہوا ہے، اور اس کی اطاعت کرنے والے دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔
احساسِ گناہ
فقہا نے گناہ کو گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ گناہ کی نوعیت احساس گناہ کی نسبت سے مقرر ہوتی ہے۔ جتنی بے حسی اتنا ہی بڑا گناہ۔ اس حقیقت کو تین اصحابِ رسول انس بن مالک، ابو سعید الخدری، اور عبادہ بن القرط نےروایت کیا ہے: إِنَّكُمْ تَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعْرِ، إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوبِقَاتِ (مسند احمد، احادیث نمبر، 12604، 10995، 20751)۔ یعنیبے شک تم کچھ برےکام کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں، حالانکہ ہم نبی ﷺ کے زمانے میں ان کو ہلاکت میں ڈال دینے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ احساس کی نوعیت اصل چیز ہے، جو گنا ہ کو کبیرہ یا صغیرہ بناتی ہے۔ احساسِ خطا کی کمی یا زیادتی ایک گناہ کو گناہ صغیرہ یا گناہ کبیرہ بنادیتی ہے۔ احساس کی شدت سے شعور کی گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اس کا تعلق معرفت سے ہے۔ جس درجے کی معرفت، اسی درجے کا احساسِ خطا۔اِس روایت میں دراصل ایسے آدمي کی حالت بیان کی گئی ہے جس سے بشری تقاضے کے تحت کوئی غلطی سرزد ہوجائے، مگر اِس کے بعد وہ غفلت یا سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ وہ شدید قسم كي توبہ وانابت کا ثبوت دے۔ وہ صبح وشام اللہ کی پکڑ سے ڈرتا رہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قیامت میں اللہ کی خصوصی رحمت ومغفرت حاصل ہوگی۔
اس کے برعکس، کچھ لوگ وہ ہیں، جن کا ذکر صحابی رسول ابو ایوب انصاری نے ان الفاظ میں کیا ہے: إِنَّ الرَّجُلَ لِيَعْمَلُ الْحَسَنَةَ، يَتَّكِلُ عَلَيْهَا، وَيَعْمَلُ الْمُحَقَّرَاتِ حَتَّى يَأْتِيَ اللهَ وَقَدْ أَخْطَرَتْهُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ السَّيِّئَةَ فَيَفْرَقُ مِنْهَا حَتَّى يَأْتِيَ اللهَ آمِنًا(شعب الایمان للبیہقی، اثر نمبر 6880)۔ یعنی بیشک ایک آدمی نیک کام کرتا ہے، اوراس پر وہ پُراعتماد ہوتا ہے، مگر وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرتا رہتا ہے، چنانچہ وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ گناہ اس کے لیے سنگین مسئلہ بن کر موجود ہو ں گے۔ (اس کے برعکس)ایک اور آدمی ہے،جو گناہ تو کرتا ہے، مگر برابر وہ اس سے خائف رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے مامون ہوکر ملے گا۔
بھوپال کے ایک بزرگ تھے شاہ یعقوب مجددی (وفات 1970)۔ ان کی مجلس میں ایک صاحب آیا کرتے تھے، جو داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ شاہ صاحب ان کو بار بار تاکید کرتے رہتے تھے۔ایک دن اس شخص نے کہا کہ حضرت اگر میں داڑھی نہیں رکھتا تو کیا ہوا، داڑھی اسلام میں فرض تو نہیں، صرف سنت ہی تو ہے۔ یہ سن کر شاہ یعقوب صاحب نے کہا کہ داڑھی بلاشبہ سنت ہے، لیکن تمہارا لہجہ کفر ہے۔
ان كي بات كا مطلب يه هے كه بے عملی گناہ ہے۔ مگر سرکشی اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ بے عملی کے ساتھ اگر شرمندگی ہو تو شاید اللہ تعالی ایسے شخص کو معاف کر دے۔ مگر جو شخص بے عملی کے ساتھ سرکشی دکھا رہا ہو وہ قابلِ معافی نہیں۔ اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں اصل اہمیت شدت احساس کی ہے، نہ کہ ظاہری عمل کی۔