تعمیری طریقہ
سید منصور آغا(پیدائش 1945)دہلی میں رہتے ہیں ان کا وطن میرٹھ ہے۔ یکم جولائی 1996 کی ملاقات میں انھوں نے اپنا ایک تجربہ سنایا جس میں ایک قیمتی سبق موجود ہے۔ 1963-64 میں وہ میرٹھ کالج کے طالب علم تھے۔ ان کے پولیٹکل سائنس کے استاد مسٹر کے سی گپتا تھے۔ ہندستان کی سیاسی تاریخ پر جب انھوں نے لکچر دینا شروع کیا تو یہ آغاصاحب کے لیے بہت پریشان کن ثابت ہوا۔یہی حال ان کے ساتھی مستعین الرحمن صاحب کا تھا۔ مسٹرگپتا نے اپنے لکچر میں تقسیم اور سیاسی تاریخ کو اس طرح بتایا جس میں سارا الزام مسلمانوں پر آتا تھا۔ دونوں طالب علموں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے۔آخر میں انھوں نے طے کیا کہ غصہ ہو نے یا مشتعل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہم لوگوں کو اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ ہم مسٹر گپتا کی علمی کاٹ کر سکیں۔
طے شدہ پر وگرام کے مطابق، ا ب دونوں اپنا خالی وقت لائبریری میں گزارنے لگے۔ وہ ہندستان کی سیاسی تاریخ اور تقسیم ہند کے تاریخی ریکارڈکا مطالعہ کرتے۔ اس طرح وہ پوری ذہنی تیاری کے ساتھ کلاس میں جانے لگے۔ انھوں نے یہ کیا کہ جب گپتا صاحب تاریخ کی کوئی غلط تعبیر پیش کرتے تو آغاصاحب اور ان کے ساتھی فوراً انھیں ٹوکتے اور پورے حوالہ کے ساتھ کہتے کہ آپ ایسا کیوں کرکہتے ہیں۔ فلاں کتاب میں تویہ بات اس طرح لکھی ہوئی ہے۔ اور فلاں مورخ نے تو اس کو اس طرح بیان کیا ہے۔
کچھ دن ایسا چلتا رہا۔ آخر کا رایک دن مسٹر گپتا نے دونوں طالب علموں کو اپنے کمرے میں بلایا۔ انھوں نے کہا کہ میرے دل میں تم لوگوں کی بہت قدر ہے۔ تم لوگوں نے میری تصحیح کر دی اور مجھے روشنی دکھائی۔اس کے بعد مسٹر گپتا کے لکچر کا انداز بالکل بدل گیا۔ وہ آخر وقت تک دونوں مسلم طالب علموں کے ساتھ نہایت عزت کا سلوک کرتے رہے۔
اس طرح کے کسی مسئلہ کے حل کا یہی تعمیری طریقہ ہے۔ اور مسائل ہمیشہ تعمیری طریقہ سے حل ہو تے ہیں، نہ کہ تخریبی طریقہ سے۔