فوق الفطری حکم

قرآن میں آیا ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (12:40)۔ یعنی حکم صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اس آیت میں حکم کا لفظ بطور خبر ہے، جب کہ عبادت کا لفظ بطور انشاء ہے۔ خبر کا مطلب ہے، کسی ہونےوالے واقعہ کے بارے میں انفارمیشن دینا،اطلاع کرنا۔ اور انشاء کا مطلب ہے، کسی بات کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ کرنایاحکم دینا۔اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کائنات میں فوق الفطری اقتدار (supernatural sovereignty) صرف اللہ کا ہے، اور وہ ازل سے ابد تک قائم ہے، اوربحیثیت مقتدر اعلیٰ ا س کا امر یہ ہے کہ انسان اپنے اختیارانہ ارادہ کے تحت صرف اسی کی عبادت کرے، اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرے۔قرآن کی اس آیت سے حکومت الٰہیہ کا نظریہ نکالنا سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ خبر کو انشاء بنانے کے ہم معنی ہے۔ ایسا کرنا مذموم تفسیر بالرائے کی ذیل میں آتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ اللہ کا حکم ساری کائنات میں بالفعل قائم ہے، نہ کہ انسان اس کو قائم کرے۔یہ كائنات ميں جاري ايك فطري قانون كي خبر دي جارهي هے۔اب انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر50) کا کیس بن جائے۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم ا س کو دیکھ رہے ہو۔ بات صرف عبادت کی حد تک نہ ہو، بلکہ وہ اپنی پوری زندگی اسی میں جینے لگے۔قرآن كے مطابق، اس كي نماز اس كي قرباني، اس کا جینا، اور اس کا مرنا، سب کا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہوجائے(6:162)۔وہ ہر چیز میں اللہ کی کار فرمائی کا مشاہدہ کرے، وہ کامل معنوں میں اللہ کا عبد بن جائے۔ اس کے لیے اللہ کا معاملہ صرف رسمی عقیدہ کا معاملہ نہ رہے، بلکہ اللہ اس کے لیےایک زندہ عقیدہ کا معاملہ بن جائے، جیسا کہ آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت الکرسی ایک لمبی آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:

اﷲ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا(الْحَيُّ الْقَيُّومُ)۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو وہ چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، بڑا۔(2:255)

انسان کے لیےاللہ کی دریافت کا ایک ذریعہ کائناتی نشانیوں میں غور و فکر کرنا ہے۔دورِ جدید میں سائنسی دریافتوں نے ان نشانیوں کا دائرہ بہت وسیع کردیا ہے۔ مثلاً انسان جب کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ پاتا ہے کہ کہکشائیں (galaxies)، اور پورا شمسی نظام (solar system) نہایت صحت (accuracy) کے ساتھ چل ر ہے ہیں۔ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا انتہائی صحت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ملین اور بلین سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ کائنات مسلسل طور پر پھیل رہی ہے۔ چاروں طرف اس کا پھیلنا (expansion)انتہائی صحت (precision) کے ساتھ واقع ہو رہا ہے۔ متحرک ملکی وے (milky way)کے ایک کنارہ پر پور ا شمسی نظام اس طرح قائم ہے کہ شمسی نظام بھی حرکت میں ہے، اور ملکی وے بھی حرکت میں ہے، اور یہ پورا واقعہ حد درجہ صحت کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ملین اور بلین سال کے بعد بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔اس طرح کے بےشمار نظامات ہیں،جو اس لامحدود حد تک وسیع خلا (space) میں پھیلے ہوئے ہیں۔مثلاًستاروں کا نظام (stellar systems)اور ایکسو پلانیٹری سسٹم (exoplanetary systems)،وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک مسلسل طور پر بے حد تیز رفتار مگرانتہائی صحت کے ساتھ متحرک ہیں۔ مگر ان میں کبھی ادنیٰ درجہ کا بھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کائنات کا انتظام کرنے والا ایک حی و قیوم خالق و مالک ہے۔ اس کے بغیر یہ انتظام ممکن نہیں۔  

 قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں عظمت ِ خداوندی کا ذکر ہے، نہ کہ زمین پر حکم خداوندی کے بزور نفاذ کا کوئی مطالبہ۔یعنی یہ فوق الفطری حکم بالفعل قائم ہے، تاکہ انسان اس فوق الفطری حکم کے ذریعے خدا کو دریافت کرے، اور اس کے آگےخود اختیار کردہ ڈسپلن کے تحت جُھک جائے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom