دوسرا قرآن
ایک مسلمان نے اپنے ایک غیر مسلم دوست کو قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔ غیرمسلم نے بڑے شوق اور احترام کے ساتھ قرآن کو لیا اور اس کو شروع سے آخر تک پڑھ ڈالا۔ اگلی ملاقات میں اس نے قرآن کا مذکورہ نسخہ واپس کرتے ہوئے کہا:’’اب دوسرا قرآن دیجیے ‘‘۔
مسلمان نے سمجھا کہ وہ قرآن کا دوسرا نسخہ مانگ رہے ہیں۔ چنانچہ وہ دوسرا نسخہ لائے اور اس مذکورہ غیر مسلم کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ غیر مسلم نے اس کو لے کر کچھ دیر الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر کہا ’’یہ تو وہی قرآن ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اب وہ قرآن دیجیے جس پر آپ لوگ عمل کرتے ہیں ‘‘۔
غیرمسلم نے قرآن میں جو اسلام پڑھا وہ اس سے مختلف تھا جو اس نے مسلمانوں کی اپنی زندگی میں دیکھا تھا۔ غیر مسلم نے سمجھا کہ مسلمانوں کے یہاں شاید دو قرآن ہے۔ ایک وہ جس کو اس نے ابھی پڑھاہے، دوسرا وہ جو ابھی اس کو پڑھنے کو نہیں ملا۔
بظاہر یہ ایک لطیفہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر امر واقعہ یہی ہے کہ مسلمانوں کا دو قرآن ہے۔ ایک وہ جو خدا کی طرف سے اس كے رسول پر چودہ سو سال پہلے بذريعه وحي اتر اتھا۔ دوسرا وہ جو انھوں نے خود لکھ رکھا ہے۔ اس دوسرے قرآن کا نام قرآن نہیں۔ اس کا نام قرآن کی تشریح و تعبیر ہے۔ مسلمانوں نے اپنی تشریح و تعبیر سے قرآن کے متوازی ایک اور قرآن لکھ رکھا ہے۔ اس دوسرے قرآن میں وہ سب کچھ ہےجس پر آج کے مسلمان عمل کر رہے ہیں۔
قرآن میں اسلام اطاعت کا نام ہے مگر مسلمانوں کی اپنی تشریح میں اسلام فخر کی چیز بن گیا ہے۔ قرآن کے مطابق نجات کا دارو مدار عمل پر ہے مگر مسلمانوں کی تشریح کے مطابق نجات کے لیے یہ کافی ہے کہ آدمی اپنے کو مسلمان کہتا ہو۔ قرآن کا اسلام یہ ہے کہ آدمی اپنا احتساب کرے مگر مسلمانوں کی تشریح کے خانہ میں اسلام اس کا نام ہو گیا ہے کہ آدمی احتسابِ عالم کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہو۔ قرآن کا اسلام سارے عالم کا اسلام ہے۔ مگر مسلمانوں کے ذہنی خانہ میں وہ ایک قومی چیز بن کر رہ گیا ہے۔