برائی کو روکو

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:مَا ‌مِنْ ‌قَوْمٍ ‌يُعْمَلُ ‌فِيهِمْ ‌بِالْمَعَاصِي ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوا، إِلَّا يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ (سنن ابو داؤ د،حدیث نمبر 4338)۔ یعنی، کسی بھی قوم میں اگر گناہ کیےجائیں اور قدرت رکھنے کے بادجود لوگ گناہ گاروں کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ خداان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔

ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں : والَّذِي نَفْسِي بِيدِه ‌لتأْمُرُنَّ ‌بالمَعْرُوفِ، ولتَنْهَوُنَّ عن المُنْكرِ، أو ليُوشِكنَّ الله يَبْعثُ عليكُم ‌عِقابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونهُ، فلا يستجيبُ لكُم (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2309)۔ یعنی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ضرور ہے کہ تم لوگ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ ورنہ جلد ہی خدا تم سب پر عذاب بھیج دے گا۔پھر تم خدا کو پکارو گے مگر وہ تم کوکوئی جواب نہ دے گا۔

حدیث میں اس قسم کی جو ہدایتیں نقل ہوئی ہیں وہ اصلاً سماجی ہدایتیں ہیں، نہ کہ سیاسی ہدایتیں۔ یعنی ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی حکمراں کو ’’ظالم ‘‘ قرار دے کر اس کے خلاف شورو غل کرو اور انصاف قائم کرنے کے نام پراس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی مہم چلاؤ۔ اس قسم کی اسلامی سیاست محض موجودہ زمانہ کی سیاسی پارٹیوں کی نقل ہے۔ اس کا مذکورہ اسلامی ہدایت سےکوئی تعلق نہیں۔ ان ہدایات کامخاطب معاشرہ کا ہر فرد ہے، نہ کہ کوئی سیاسی نظام۔

کسی معاشرہ میں ہمیشہ تھوڑے آدمی ہوتےہیں جو شرارت کرتےہیں۔ اگر معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہو تو جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو ستا رہا ہے۔ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کو تکلیف دے رہاہے۔ ایک صاحب معاملہ دوسرےصاحب معاملہ كے کو حقوق ادا نہیں کرتا تو ایسےمعاشرہ میں مظلوم کوخود اپنےآس پاس ایسےلوگ مل جاتے ہیں جو اس کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں۔ وہ ظالم کو مجبورکرتے ہیں کہ وہ اپنی شرارتوں سےباز آئے۔ ایسے سماج میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں مگر وہ وہیں کی وہیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس، جب سماج کے لوگوں کا حال یہ ہو جائے کہ وہ اپنے سامنےبرائی کے واقعات کو لا تعلقي كے انداز میں (indifferently) دیکھنے لگيں تو دھیرے دھیرے ان خرابیوں کے نتیجہ میں ایسے فتنے ابھرتے ہیں جو پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

ماحول کادباؤ سب سے بڑا دباؤ ہے حتیٰ کہ حکومت اور عدالت سےبھی زیادہ۔ اگر آس پاس کا ماحول برائي کو روکے اور حق کی حمایت میں کھڑا ہو جائے تو کبھی برائیاں پھیل نہیں سکتیں۔اس کے برعکس، جب سماج کے افراد برائی کودیکھنے کے باوجود خاموش رہیں تو اس سے بیک وقت دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک طرف برائي كرنے والےکی حوصلہ افزائی هوتي هے اور دوسری طرف مظلو م کے اندر انتقام اور بےاعتمادی۔ یہ دونوں چیزیں وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے کہ برائیاں بڑھ کر خود ان لوگوں کو نقصان پہنچانے لگتي ہیں جو اپنے کو مامون سمجھ کر برائی کے معاملہ میں غیر جانب دار بن گئے تھے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom