ایک انٹرویو


(تیسری قسط)

سوال:مولانا، فسادات کے بارے میں عموماً اس طرح کی خبریں آتی ہیں کہ ہندو لیڈروں کی اشتعال انگیزی فسادات کا باعث بن جاتی ہے۔آپ بتائیں گے کہ فسادات کا آغاز کس طرح ہوتا ہے اور فوری اسباب کیا ہوتے ہیں ؟

جواب:بڑا اہم سوال ہے کہ فساد کس طرح شروع ہوتا ہے۔اس کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو دو مثالیں دوں گا۔

علی گڑھ میں ہر سال دنگل ہوتا ہے، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اگست1978 کے ایک دنگل میں مسلم پہلوان کو شکایت ہوئی کہ اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ اس کی شکایت کا نشانہ سریش بھورے تھا جس سے اس کی رقابت چلی آ رہی تھی۔دنگل کے بعد مسلمان پہلوان نے طے کر لیا کہ سریش بھورے سے انتقام لینا ہے۔ اکتوبر کی ایک شام کو انصار احمد پہلوان اور اس کے ساتھی سریش بھورے کو اکیلا پا کر اس پر حملہ آور ہو گئے اور چھرے سے وار کرکے اس کو زخمی کر دیا۔وہ مر گیا۔ سریش بھورے کا مرنا شہر کے ہارے ہوئے فرقہ پرست لیڈروں کے لیے ایک نادر موقع تھا۔انہوں نے جلوس نکالا اور نعرہ لگایا کہ خون کا بدلہ خون۔اشتعال انگیز تقریریں کر کے پورے شہر کی فضا کو خراب کر دیا، یہاں تک کہ فساد شروع ہو گیا اور علی گڑھ جل کر خاکستر ہو گیا۔

ہندو مسلم فسادات اکثر ان مقامات پر ہوتے ہیں جہاں مسلمان اقتصادی اعتبار سے نسبتاً بہتر ہیں۔اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ مسلمانوں کی اقتصادیات کو برباد کرنے کی منظم سازش ہے۔حالانکہ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جن مقامات پر بہتر حیثیت میں ہیں،وہیں وہ جذباتی حرکتیں بھی زیادہ کرتے ہیں۔کسی آدمی کو پرجوش کارروائی کرنے کے لیے ہمیشہ سماجی پشت پناہی درکار ہوتی ہے۔یہ سماجی پشت پناہی ان مقامات کے مسلمانوں کو بآسانی مل جاتی ہے،جہاں وہ اقتصادی اعتبار سے بہتر ہوں۔مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے اور اختلافات بھی انہی مقامات پر زیادہ ہوتے ہیں جہاں انہیں کسی قدر معاشی استحکام حاصل ہو۔اسی طرح مسلم اور غیر مسلم تصادم بھی اکثر ان مقامات پر ہوتا ہے جہاں مسلمان عددی اور اقتصادی اعتبار سے اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

خدا اور رسول کا حکم ہے کہ اپنے آدمی کو ابتدائی شرارت کے وقت پکڑو۔مگر وہاں مسلمانوں کے قائدین صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب فساد بڑھ کر اپنی عمومی بربادی تک پہنچ جاتا ہے۔ ابتدائی چنگاری کو بھڑکانے والے کا ہاتھ پکڑنے کے لیے کوئی نہیں اٹھتا۔جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ستاتا ہے تو کوئی بھی موقع پر پہنچ کر ظالم مسلمان کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔حالانکہ اس قسم کے مظلوم مسلمان اکثر منفی جذبات کا شکار ہو کر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جس کی سزا پورے معاشرے کو بھگتنی پڑتی ہے۔

اسی طرح جب ایک غیر مسلم سے شکایت پیدا ہونے پر ایک مسلمان اس کے خلاف تخریبی منصوبہ بناتا ہے یا جب کچھ مسلمان غیر مسلموں کے سامنے یہ بے معنی مطالبہ لے کرکھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہماری نماز کے وقت عبادت گاہ کی گھنٹیاں نہ بجاؤ، یا مسجد کے سامنے سے اپنا جلوس نہ لے کر جاؤ تو ایسے مواقع پر مسلمانوں میں سے کوئی نہیں اٹھتا کہ ان سرپھرے مسلمانوں کو روکے۔

خدا کی ہدایت یہ ہے کہ ہم انفرادی فساد کے وقت متحرک ہوں۔مگر ہمارے تمام لیڈر صرف اجتماعی فساد کے وقت متحرک ہوتے ہیں۔یہ خدا کے راستے پر چلنے کے بجائے خود ساختہ راستے پر چلنا ہے۔اور خود ساختہ راستے پر چلنا خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔

مئی 1984 میں بھیونڈی تھانے اور بمبئی (ممبئی)کے علاقہ میں خونریز فساد ہمارے مسلمان رہنماؤں کے اندازِ کار کی بہترین مثال ہیں۔یہ فساد اتنا شدید تھا کہ اخبارات نے اسے زمین کے اوپر جہنم قرار دیا۔واقعہ یہ تھا کہ انتہا پسند ہندو تنظیم کے لیڈر بال ٹھاکرے نے اپریل1984 کو چوپاٹی کے مقام پر ایک تقریر کی۔ نه ملک کي کسی نیوز ایجنسی نے اس تقریر کو نشر کیا اور نہ کسی اخبار نے اس کی رپورٹ شائع کی۔بعض مقامی نوعیت کے مرہٹی اخبارات نے اس کی رپورٹنگ کی،لیکن یہ اشتعال انگیز نہیں تھی۔البتہ بنگلور کے اردو اخبار’’نشیمن‘‘نے اس کی جو رپورٹ شائع کی وہ مسلمانوں کے لیے خاصی اشتعال انگیز ثابت ہوئی۔بعد میں بمبئی (ممبئی)کے ایک اخبار’’ عالم‘‘ نے اس کو تیز وتند سرخیوں کے ساتھ نقل کیا۔اس کے بعد حسب عادت اردو اخبارات نے پرشور تبصرے کیے۔ان اخبارات کا کہنا تھا کہ بال ٹھاکرے نے قرآن اور پیغمبراسلام کی توہین کی ہے۔حالانکہ بال ٹھاکرے نے دہلی کے انگریزی میگزین’’لنک‘‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس کی تردید کی اور اسے جھوٹ قرار دیا اور یہ پیشکش بھی كي کہ تقریر کا ٹیپ سن لیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے۔

3مئی کو بھیونڈی میں شیو جینتی کا جلوس نکلا، حالانکہ قبل ازیں اس کی اجازت نہیں لي گئي تھی۔ مسلمانوں کو جلوس پر اعتراض تھا۔بہرحال حفاظتی اقدامات کے سبب جلوس عافیت سے گزر گیا۔ 11مئی کو مسلمانوں نے ایک غصہ بھرا جلوس نکالا،جوشیلی تقریریں کیں اور بال ٹھاکرے کی مورت بنا کر اس کو پرانی چپلوں کا ہار پہنایاگیا۔اس فضا میں 16مئی کو شب برات منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھیونڈی کی سڑکیں اور گلیاں جن کی گندگی کو ختم کرنے کا کبھی کسی مسلمان کو خیال نہ آیا تھا، ان کو سبز جھنڈیوں سے سجایا جانے لگا۔جھنڈے کا جہاد یہاں تک پہنچا کہ پرجوش مسلمانوں نے ایک مقام پر جہاں پہلے سے شیو سینا کا جھنڈا لگا ہوا تھا،وہاں سبز جھنڈا لہرا دیا، جو ان کے خیال میں اسلامی جھنڈا تھا۔ اس اشتعال کی فضا میں 16مئی کو شیو سینا کے لیڈروں نے بمبئی بند منایا جس نے اشتعال کو آخری حدوں تک پہنچا دیا اور پھر17مئی کو بھیونڈی میں فساد پھوٹ پڑا۔یہ فساد اتنا شدید تھا کہ چند دنوں کے اندر اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔جانی نقصان اس کے علاوہ تھا۔فساد کو کنٹرول کرنے کے لیےفوج كي مدد ليني پڑي۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نقصان یک طرفہ تھا۔

حدیث میں مومن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ ایسا اقدام نہیں کرتا جس سے نمٹنے کی اس کے اندر طاقت نہ ہو(سنن الترمذی،حدیث نمبر 4016)۔مگر یہاں مسلمانوں نے ایسا اقدام کیا جس میں وہ چھری کے مقابلہ میں خربوزہ ثابت ہوئے۔جو مسلمان اس قسم کے غیر حکیمانہ افعال میں مبتلا ہوں،سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی اسلامیت کو کس خانہ میں رکھا جائے؟ (جاری)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom