ایک خط

مولانا،آ پ کی تقریر (5 جولائی 2020)کو سن کر جو تاثر ذہن میں آیا، وہ لکھ رہا ہوں۔ اس تقریر کا عنوان تھا: مارکس اور مودودی کا تقابل۔ اس تقریر پر میرا تاثر درج ذیل ہے:

 میرے لیے یہ ایک نئی بات ہے کہ کارل مارکس نے اخلاقیات کو حکومت کا موضوع بنادیا، جب کہ اخلاقیات انسان کی اپنی ذات کا موضوع ہے۔ یہ کارل مارکس کی غلطی تھی۔ یہی غلطی مولانا مودودی صاحب نےقرآن کی آیت أَقِيمُوا الدِّينَ (42:13)کی تشریح میں کی۔ انھوں نے أَقِيمُوا الدِّينَ (دین کو قائم رکھو)کو حکومت کا موضوع بنادیا۔ جب کہ وہ انسان کی اپنی ذات کا موضوع تھا۔ دونوں کی غلطی میں بالکل درست اشتراک ہے۔

 مودودی صاحب کی غلطی نے أَقِيمُوا الدِّينَ کو حکومت کا موضوع بنادیا تو اس کے بعد یہ ہوا کہ معاشرے میں اگر کچھ برائیاں اور کمیاں دکھائی دینے لگیں تو ذہن فوراً اس طرف گیا کہ اس کی وجہ اسلامی حکومت کا نہ ہونا ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو وہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات کی پیروی کرنے پر مجبور کرتی۔ اس کے برعکس، اگر ہم أَقِيمُوا الدِّينَ کو انسان کی اپنی ذات کا موضوع بنائیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں جب کبھی برائیاں دیکھیں گے تو ذہن اس طرف جائے گا کہ ان برائیوں اور وجہ صحیح ذہن سازی کا نہ ہونا ہے، یا صحیح تربیت کمی۔ اب ذهن سازي کے لیے فوری طور پر اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جاتاہے۔

 صحیح ذہن سازی کے لیے کسی حکومت کی ضرورت نہیں، ذہن سازی کے لیے صالح انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی افراد کی تربیت کے لیے اسلامي حكومت کا نہ ہوناکوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن مولانا مودودی صاحب کی نظر سے دیکھیں گے تو اسلامی حکومت کاقائم نہ ہونا برائی کی فوری وجہ بن کر سامنے آئے گا۔ اب پہلا کام یہ ہوگا کہ حکومت حاصل کرو، اور اسے اسلامی حکومت بناؤ۔ پھر یہیں سے موجودہ حکومت کے خلاف ذہنی طور پر بغاوت شروع ہوجاتی ہے،جو بعد کے مرحلے میں عملی بغاوت تک پہنچ جاتی ہے، یہاں تک کہ معاشرہ جنگ و جدال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فی الواقع آج مسلم ممالک میں الربیع العربی (Arab Spring)کے نام سےہو رہا ہے۔ جیسے سیریا، یمن، لیبیا اور مصر،وغیرہ۔ (مولانا عبد الباسط عمری، گلبرگہ،مورخه 6جولائی 2020)

جواب

برادرم مولانا عبد الباسط عمری، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

آپ سے ٹیلیفون پر ہوئی گفتگو کے پس منظر میں آپ کا خط میرے لیے ایک چشم کشا خط ہے۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں آپ کے بارے میں جو احساس پیدا ہوا، وہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں آپ کی یہ تحریر انقلابی تحریر ثابت ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ آپ دو مزید چیزوں کا ثبوت دے سکیں — آپ اپنی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کریں، جو دو صفتوں کا حامل ہو: کامل سادگی، اور مکمل معنوں میں قناعت۔

مکمل سادگی کسی انسان کے لیے کامل عزم اور بامقصدزندگی کی علامت ہے۔ اور قناعت اس بات کی علامت کہ وہ انسان حقیقت پسندانہ سوچ کا مالک ہے۔

15 جولائی 2020          وحید الدین، نئی دہلی


ختم نبوت

قرآن کے مطابق، خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (33:40) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا ہے۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کاایک پہلو یہ ہے — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوتی عمل کا آغاز۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom