اسلام میں عورت


عورت نصف ِ انسانیت

پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔ اُنہوں نے بتا یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی قسم کا ایک سوال کیا گیا تھا۔ آپ نے اس مسئلہ کا جواب عورت اور مرد کے تعلق سے ایک اہم اسلامی اصول یہ بیان کیا:عورتیں بلا شبہ مردوں کا شقیقہ ہیں (إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَال) سنن ابوداؤد،حدیث نمبر 236،سنن الترمذی،حدیث نمبر 113۔

شقیق یا شقیقہ عربی زبان میں کسی ‌چیز کے درمیان سے پھٹے ہوئے دو برابر برابر حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے دردِ‌شقیقہ بولا جاتا ہے۔ یعنی وہ درد جو سر کے آدھے حصہ میں ہو۔ اوپر کی روایت میں اسی مفہوم میں عورت کو مرد کا شقیقہ کہا گیا ہے۔ یہ عورت کی حیثیت کی نہایت صحیح تعبیر ہے۔ اسلام کے مطابق عورت اور مرد دونوں ایک کُل‌کے دو برابر برابر اجزاء ہیں، اس کُل‌کا آدھا عورت ہے اور اُس کا آدھامرد۔

قاضی ابوبکر ابن العربی المالکی (وفات 543ھ)نے اس حديث كي شرح ميں يہ الفاظ لکھےہیں : أنَّ الخِلقَة فيهم واحدةٌ، والحكمُ فيهم بالشّريعة سواء (المسالِك في شرح موطّامالك، جلد2، صفحہ216)۔ یعنی ان دونوں کی تخلیق ایک ہے، ان کے بارے میں شریعت کا حکم برابر ہے۔ بدرالدین العینی (وفات 855ھ) نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے:وَالْمعْنَى أَن النِّسَاء نَظَائِر الرجل وأمثالهم فِي الْأَخْلَاق والطباع كأنهن شُقِقْنَ مِنْهُمْ(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد3، صفحہ235)۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے ہم رتبہ اور ان کی مانند ہیں، اپنے اخلاق اور پیدائش کے اعتبار سے، گویا وہ ان سے ٹکڑے ہوکر الگ ہوئی ہوں۔

 دوسرے الفاظ میں، عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement) ہیں۔اس اعتبار سے یہ بات عین درست ہو گی کہ عورت کو نصفِ انسانیت کا لقب دیا جائے۔

کیا اسلام میں عورتوں کو مارنے کی اجازت ہے

یہ غلط فہمی سورہ النساء کی آیت نمبر 34کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس آیت میں عورتوں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے،یہ تنبیہ کی زبان ہے۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بیک وقت9 خواتین تھیں۔ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ نے ان خواتین کو مارا؟ یہ ثابت ہے کہ ان خواتین سے رسول اللہ کو بعض امورمیں نزاع ہوئی، لیکن رسول اللہ نے کسی خاتون کو کبھی نہیں مارا۔اس کے برعکس، رسول اللہ برابر اپنے اصحاب کو اس قسم کی نصیحت کرتے تھے:إِنَّ أَكْمَلَ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 24677)۔ یعنی بےشک ایمان کے اعتبار سے مکمل مومن وہ ہے، جو ان میں اخلاق میں سب سے اچھا ہو، اور اپنی بیوی کے ساتھ سب سے نرم ہو۔

 قَوّام کا مطلب کیا ہے

قرآن کی سورہ النساء کی آیت میں آیا ہے کہ مرد عورتوں کے اوپر قوام ہے:الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ(4:34)۔ یعنی مرد عور توں کے او پر قوّام ہیں۔ قوّ ام کے معنیٰ عربی زبان میں نگراں اورمنتظم‌کے ہیں۔’’ مرد قوام ہیں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مرد افضل مخلوق ہے، اور اس کے مقابلے میں عورت غیرافضل‌ مخلوق۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ خاندانی معاملات کے انتظام یا بند و بست کے لیے خالق نے یہ فطری اصول مقرر کیا ہے کہ گھر کے داخلی‌مجموعہ میں مردمنتظم‌کی ذمہ داری کو سنبھا لے تا کہ خاندان کا نظام اسی طرح درست طور پر چل سکے جس طرح بقیہ کائنات کا نظام اسی اصولِ تنظیم کو اختیار کر کے درست طور پر چل رہا ہے۔آج کے الفاظ میں قوّام کا مطلب بیان کیا جائے تو وہ لفظ باس (boss) ہے۔ ہر ادارہ اور ہر دفتر کو منظّم طورپر چلانے کے لیے ایک باس ہوتا ہے۔ کارکن خواتین اپنے دفتروں میں باس کو پوری طرح تسلیم کرتی ہیں۔ اسلام نےگھر کے لیے مرد کو باس کی حیثیت دی ہے:

Bossism is a universal principle, and the home is no exception.

یہ انتظامی امور کا معاملہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ ذمہ داری کی بات ہے، نہ کہ افضلیت کا معاملہ۔ یعنی گھریلو امور میں مرد پر زیادہ ذمہ داری ہے۔ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی استثنا ہے۔ کوئی عورت اگر اپنے گھر میں مرد سے زیادہ سمجھدارہو، تو وہ بھی اپنے گھر میں قوام کی ذمہ داری نبھا سکتی ہے۔ 

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom