ڈائری 1986
23 جون 1986
مجھے اپنی زندگی میں بار بار ایک ہی تجربہ ہوا ہے۔اس تجربہ میں ابھی تک کوئی استثنا ثابت نہ ہو سکا۔ مزید یہ کہ تجربات کی اس لمبی مدت میں اکابر کے نام بھی موجود ہیں اور اصاغر کے نام بھی۔
وہ تجربہ یہ ہے کہ ایک شخص ابتدائی تعلقات میں میرے ساتھ خوش اخلاقی برتتا ہے، وہ بڑے بڑے الفاظ میں میرا اعتراف کرتا ہے، وہ میرے مشن میں بھرپور ساتھ دینے کا اقرار کرتا ہے۔اس کے بعد جب تعلقات بڑھتے ہیں اور کوئی اختلافی بات سامنے آتی ہے یا کسی وجہ سے اس کی انا پر چوٹ لگتی ہے تو اچانک وہی آدمی دوسرا آدمی بن جاتا ہے۔
میری تعریف کرنے والا میری برائی کرنے لگتا ہے۔ میرا ساتھ دینے والا میرا دشمن بن جاتا ہے۔ جو شخص پہلے میرے مقابلے میں خوش اخلاقی کا پیکر تھا، اب وہ میرے مقابلہ میں بداخلاقی کا مجسمہ نظر آنے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ میری تخریب کاری اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اخلاق کے اعتبار سے عین اس مقام پر ہیں، جہاں پہلے یہود تھے۔معمول کے حالات میں اچھا بنےرہنا اور غیر معمول والے حالات پیدا ہوتے ہی کچھ سے کچھ ہو جانا، یہ یقینی طور پر یہودیت ہے۔ اور یہی یہودیت ہے جس پر آج کے مسلمان قائم ہیں۔
مومن و مسلم وہ ہے جو اللہ سے ڈرے، اور اللہ سے ڈرنے والا آدمی ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ دوستی کے وقت اچھا بنا رہے اور اختلاف کے وقت تخریب کاری کا نمونہ پیش کرے۔
24 جون 1986
آفتاب احمد صاحب کی لڑکی کی شادی تھی۔ شادی کی تقریب گرین پارک کے قریب (بارات گھر) میں ہوئی۔ آفتاب احمد صاحب انجینئرس انڈیا (نئی دہلی) میں خریداری کے افسر ہیں۔ انجینئرس انڈیا میں 99فیصد ہندو صاحبان کام کرتے ہیں۔ آفتاب احمد صاحب نے خود آکر اصرار کیا تھا، اس لیے میں بھی شادی کی تقریب میں شریک ہو گیا۔ اگرچہ اس طرح کی تقریبات میں شرکت میرے ذوق کے سراسر خلاف ہے۔
آفتاب احمد صاحب نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں نے اپنے ہندو ساتھیوں (colleagues) کو تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم ضرور آئیں گے، تاکہ دیکھیں کہ مسلمانوں کی شادی کس طرح ہوتی ہے۔ آفتاب احمد صاحب نے کہا کہ ہمارے یہاں تو بس 5 منٹ میں نکاح ہو جاتا ہے۔آفتاب احمد صاحب نے بتایا کہ اس کو سن کووہ لوگ تعجب میں پڑ گئے:
They were surprised
ہندو صاحبان نے کہا کہ آپ لوگ بہت اچھے ہیں۔ ہم ہندوؤں کے یہاں تو شادی کی تقریبات میں 3-3 دن لگ جاتے ہیں۔اسلام کی ہر تقریب سادہ اور فطری ہوتی ہے۔ تاہم یہ صرف’’مسلمانوں کے مذہب ‘‘ کی خصوصیت نہیں۔ بلکہ تمام خدائی مذاہب کی خصوصیت ہے۔ ہر دین جو خدا کی طرف سے آیا وہ ابتداءً سادہ اور فطری ہی تھا۔ مگر بعد کو ان میں ملاوٹ ہوئی اور اس کی وجہ سے ان کی شکل کچھ سے کچھ ہو گئی۔ اسلام چونکہ ملاوٹوں سے پاک ہے،اس لیے وہ اپنی اصل سادگی پر بدستور باقی ہے۔
اسلام کے پیروؤں نے بھی اگرچہ بعد کو اضافے کیے، مگر یہ اضافے اصل متن میں شامل نہ ہو سکے۔ اس لیے دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام میں ایسا ہے کہ اگرچہ اس میں ہر قسم کے اضافے کیے جا چکے ہیں، مگر یہ اضافے مسلمانوں کی اپنی عملی زندگی میں ہیں، نہ کہ قرآن کے مقدس متن میں۔
25 جون 1986
جناب اسرار احمد صاحب ایم اے، دہلی کے لفٹننٹ گورنر کے پریس سکریٹری ہیں۔ان کے یہاں الرسالہ جاتا ہے۔ بہت دنوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میں پابندی کے ساتھ الرسالہ پڑھتا ہوں اور پڑھنے کے بعد اس کو لفٹننٹ گورنر صاحب کے پاس بھیج دیتا ہوں۔
اسرار احمد صاحب نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں موجودہ سروس میں 9 سال سے ہوں۔ اس درمیان میں، میں نے سات لفٹیننٹ گورنر صاحبان کےساتھ کام کیا ہے۔ یہ سب کے سب اچھی اردو جاننے والے لوگ تھے، بلکہ وہ اردو ہی جانتے تھے۔ہندی سے تقریباً ناواقف تھے۔
میں نے پوچھا کہ کیا دہلی کے لیے یہ گورنمنٹ کی پالیسی ہے کہ یہاں اردو داں لفٹننٹ گورنر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لفٹننٹ گورنر کے عہدہ کے لیے سینئر آدمی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اور ہندوؤں میں جو سینئر اور پرانے لوگ ہیں، وہ اکثر اردو جانتے ہیں۔ نیز جو لوگ تقسیم کے بعد پاکستان سے آئے ہیں، وہ تو سب کے سب اردو داں ہیں۔ گورنری وغیرہ کے عہدے اکثر انہیں حضرات کو دیے جاتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب ہندو، کم از کم شمالی ہند کے ہندو، اچھی طرح اردو سے واقف تھے۔ مسلمان اپنی مادری زبان میں ان کو اسلام کا پیغام پہنچا سکتے تھے، مگر کئی نسل گزر گئی اور مسلمانوں نے یہ کام نہ کیا۔ اس کے بعد ملک کی تقسیم ہوئی اور نئے حکمرانوں نے ملک کو دوسرے رخ پر چلانا شروع کیا۔
اب ہندوؤں کی نئی نسل اور مسلمانوں کے درمیان ایک قسم کا لسانی بعد(language gap) پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہندوؤں کی نئی نسل تک اسلام کا پیغام پہنچانا انتہائی حد تک مشکل ہو چکا ہے۔ اب عملاً وہی تھوڑے سے لوگ رہ گئے ہیں، جو ہندوؤں کی پرانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ آخری توقع ہے جس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
30 جون 1986
میں 1967 میں دہلی آیا۔ابتدا میں تقریباً 15 سال میرا قیام پرانی دہلی میں رہا۔ پرانی دہلی میں چھوٹی سی جگہ میں بے شمار انسان بسے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے زیادہ گھنا علاقہ ہے۔ میں جب پرانی دہلی میں تھا تو وہاں انسانوں کے شور سے پریشان رہتا تھا۔میں سوچتا تھا کہ اگر نئی دہلی میں رہائش کی صورت پیدا ہو جائے تو وہاں زیادہ سکون کے ساتھ کام ہو سکتا ہے۔
1983 میں نئی دہلی میں مرکز قائم ہوا اور اللہ تعالیٰ نے یہاں رہنے کی صورت پیدا فرما دی۔ مگر اصل مسئلہ سے پھر بھی چھٹی نہیں ملی۔ پرانی دہلی میں اگر انسانوں کا شور تھا تو یہاں کتوں کا شور سننا پڑا۔ یہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش حال افراد عام طور پر اپنے گھروں میں کتے پالے ہوئے تھے اور وہ برابر بھونکتے رہتے تھے۔ نئی دہلی میں، میں انسانی شور کے ماحول سے باہر نکل آیا تھا۔ مگر کتوں کے شور سے میں اب بھی مامون نہ تھا۔
شاید موجودہ دنیا میں شور سے چھٹی ملنے والی نہیں۔بے شور کا ماحول انسان کو صرف جنت میں ملے گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل آئے اور کہا کہ اللہ نے خدیجہ کو اپنا سلام بھیجا ہے۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :أُمِرْتُ أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبٌ فِيهِ وَلَا نَصَبٌ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 214)۔یعنی، مجھے حکم دیا گیا کہ میں خدیجہ کو جنت میں ایک ایسے مکان کی بشارت دوں جو یاقوت کا بنا ہوا ہوگا اور اس میں نہ شور ہوگا اور نہ تکلیف۔