تواضع کی صفت
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے یہ پیشکش کی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اے میرے رب، نہیں،بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں (وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا، وَأَجُوعُ يَوْمًا)۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔(مسند احمد، حدیث نمبر 22190)
انسانی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ اس کے پاس بطور عطیہ ہے۔یعنی خدا نے دنیا کی تمام چیزیں اس کو یک طرفہ طور پر عطا کی ہیں۔ اگر انسان ایسا سوچے تو اس سے آدمی کے اندر تواضع (modesty)کی نفسیا ت پیداہوگی۔ وہ ڈرے گا کہ جس خدا نے دیاہے وہ اس کو دوبارہ اس سے چھین نہ لے۔ مگر غافل لوگ اس عطیہ کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا یہی احساس ان کو ظالم اور متکبر بنا دیتاہے۔
انسان کو جو کچھ بھی ملا ہوا ہے، وہ اس كے ليےالله كا عطیہ ہے۔ اس کا احساس عام طور پر انسان کو اس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس سے وہ چيز چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی زمین پر ہے جس کو وہ پھاڑ نہیں سکتا، وہ ایک ايسي كائنات میں ہے جہاں ستارے اور سيارے اس کی ہر برتري کی نفی کررہے ہیں۔ یہ خدا کے مقابلے میں انسان کی حیثیت کا ایک تمثیلی اعلان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ آدمی دنیا میں متکبربن کر نہ رہے۔ وہ عجز اور تواضع کا طریقہ اختیار کرے، نہ کہ اکڑاور سرکشی کا۔اس دنیا میں انسان کو متواضع بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تجربات سےسبق حاصل کرنے والا بنے۔
محرومی کا احساس اس دنیا کے اندر تواضع کی صفت پیداکرنے کا ذریعہ ہے، اور تواضع انسان کے اندر اعلی انسانی کردار پیدا کرتا ہے۔ جو آدمی پوری اسپرٹ کے ساتھ تواضع کا طریقہ اختیار کرے، اس کے اندر یہ عمومی مزاج پیدا ہو جائے گا کہ وہ ناخوش گوار باتوں کو برداشت کرے، وہ لوگوں کی قابل شکایت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارے گا، وہ متواضع انسان، یعنی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size) بن جائے گا۔