زہد ایک عظیم عمل
صحابی کون ہے۔ صحابی وہ ہے، جس نے رسول اللہ کی صحبت سے استفادہ کیا، جس نے رسول اللہ سے براہ راست طور پر دینِ خداوندی کو اخذ کیا۔ا نھیں میں سے ایک صحابی کا نام ابوواقد اللیثی (وفات 68ھ) ہے۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے: تَابَعْنَا الْأَعْمَالَ فِي الدُّنْيَا، فَلَمْ نَجِدْ شَيْئًا أَبْلَغَ فِي عَمَلِ الْآخِرَةِ مِنَ الزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا(الزهد لوكيع بن الجراح، اثر نمبر 3)۔ یعنی ہم نے دنیا کے اعمال میں غور کیا، تو ہم نے آخرت کے لیے سب سے اچھا عمل زہد فی الدنیا کو پایا۔
زہد کا مطلب ہے دنیا سے بے رغبتی۔ اس سے مراد کسی انسان کی یہ صفت ہے کہ وہ اپنے مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعے خدا اور آخرت میں اتنا زیادہ گم ہوجائے کہ اس کی دلچسپیاں تمام تر خدا اور آخرت سے وابستہ ہوجائیں۔ خدا اور آخرت سے اس کی رغبت اتنی زیادہ بڑھے کہ وہ ہر دوسری چیز سے بے رغبت ہوجائے۔
ایسا انسان ایک مختلف انسان بن جاتا ہے۔ بظاہر وہ دوسروں کی طرح اسی دنیا میں جیتا ہے، لیکن اپنی فکر کے اعتبار سے وہ آخرت کی مخلوق بن جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے تو اللہ رب العالمین کے لیے، وہ جیتا ہے تو اللہ رب العالمین کے لیے، اس کو کسی سے ملنے کا شوق ہوتا ہے تو وہ اللہ رب العالمین سے ملنے کا شوق، اس کو کسی چیز کی رغبت ہوتی ہے تو اللہ رب العالمین کی رحمت کو پانے کی رغبت ہوتی ہے،اس کا وہ حال ہوجاتا ہے جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں : اَلَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (2:165)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے ساتھ حب شدید کا ہونا۔
زہد اعلیٰ ایمان کی صفت ہے۔ زہد اللہ سے قربت کی پہچان ہے۔ زہد جنتی انسان کا اخلاق ہے۔ زاہد انسان قرآن کا مطلوب انسان ہے۔ زاہد انسان وہ ہے، جس کو آخرت میں وہ درجہ ملے گا، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔