تزکیۂ نفس

2001 میں الرسالہ مشن ایک نئے دور میں داخل ہو ا۔ ہوا یہ کہ میں نے جنوری 2001 میں اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر سنٹر فارپیس اینڈ اسپریچوالٹی انٹرنیشنل (CPS International) قائم کیا۔ اس ادارے کاخاص مقصدخدائی تعلیمات کے مطابق، امن اور اسپریچوالٹی کو فروغ دینا ہے۔  اس مقصد کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو تیار کیا جارہا ہے تا کہ یہ تربیت یافتہ افراد سو سائٹی کے مختلف طبقات تک پہنچیں اور اس طرح کسی بڑے فکری انقلاب کا باعث بنیں۔ اس کے لیے CPS کے تحت دہلی میں اسپریچول کلاس قائم کیا گیا جو خداکے فضل سے غیرمتوقع حد تک کامیاب رہا ۔ اسپریچول کلاس کے دوران جو تجربات پیش آئے اس سے سمجھ میں آیا کہ تزکیہ کیا ہے۔

 جب لوگ اس ویکلی کلاس میں آئے تو مجھ سے گفتگو کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ہر آدمی ایک کنڈیشنڈ مائنڈ( conditioned mind) ہے اور وہ اسی میں جی رہا ہے ۔ ہرآدمی اپنے گھر ، اپنے ماحول اور لوگوں سے میل جول کے دوران جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اس سے مسلسل طور پر اس کا ذہن متاثر ہوتا رہتا ہے۔ جب انسان پیدا ہوتاہے تو وہ اپنی فطری حالت پر ہوتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ ایک ایساانسان بن جاتا ہے جو مکمل طور پر ایک کنڈیشنڈ انسان ہو ۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر فکری ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کا عمل کیا جائے۔ تاکہ انسان دوبارہ اپنی فطری حالت کی طرف لوٹ سکے۔

تزکیہ دراصل اسی ذہنی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ تزکیہ کے لفظی معنی ہیں: پاک کرنا (to purify) ۔ روایتی طور پر اس کو تزکیۂ قلب کے معنی میں لیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد تزکیۂ ذہن ہے ۔ آدمی کاذہن ہی اس کے تمام افعال کامرکز ہے ۔ ذہنی سطح پر بگڑی ہوئی سوچ کو دوبارہ صحیح سوچ بنانا ، اسی کانام تزکیہ ہے اور اسی کے ذریعے فکری اور عملی اعتبار سے وہ شخصیت بنتی ہے جس کو روحانی شخصیت یاربانی شخصیت کہاجاتا ہے ۔

میرا تجربہ ہے کہ لوگ عام طور پر کنفیوژن (confusion)میں جیتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ہماری اسپریچول کلاس میں آئے ۔ وہ ایک انٹرنیشنل امریکن کمپنی میں مینجر ہیں۔ یہاں ،امریکی اصول کے مطابق، ہایراینڈفائر(hire and fire) کا اصول رائج ہے ۔  انھوں نے کہا کہ میں مسلسل تنائو میں رہتا ہوں ۔ ہر وقت جاب کھونے کااندیشہ(fear of losing job) میرے دماغ پر چھایا  رہتا ہے۔ میں نے نصیحت کے طور پر ان کی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:

One can take away your  job. But no one  has the power to take away your destiny.

تزکیہ کو عام طور پر تزکیۂ قلب کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے اور روایتی تصور کے مطابق، تزکیۂ قلب کاذریعہ صوفیانہ اور ادووظائف ہیں۔ جب کوئی شخص ان اور ادووظائف میں زیادہ مشغول ہوتا ہے تو اس کے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے ، اسی کیفیت کو عام طور پر تزکیہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک بے اصل بات ہے۔ یہ قلبی کیفیت جو پیدا ہوتی ہے وہ دراصل وجد(ecstacy) ہے ۔ اوروجد کاکوئی بھی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔

اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں انسانی فکر کے دودور ہیں:قبل سائنس دور، اور بعد سائنس دور۔ قبل سائنس دور میں یہ سمجھا جا تا تھا کہ قلب جذباتِ انسانی کامرکز ہے ۔اس لیے صوفیا نے تزکیۂ روحانی کے لیے قلب کومرکز بنایا ۔ اور سالکینِ طریقت کے لیے مبنی برقلب وظائف تجویز کیے۔ ان وظائف میں اشتغال سے چوں کہ سالکین کو وجد کی سی ایک کیفیت محسوس ہو تی تھی ۔ ان لوگوں نے اسی وجد کو غلط طو رپر معرفت سمجھ لیا، حالاں کہ معرفت ایک شعوری حالت ہے ، جب کہ وجدصرف ایک مجہول احساس کانام ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر سمجھ لیا گیا کہ یہ طریقہ حصولِ تزکیہ کے لیے مفید ہے ۔ مگر وجد کی کیفیت سرتا سرایک غیر متعلق کیفیت ہے جو ہندو طریقےپر میڈیٹیشن (meditation) کے ذریعے بھی حاصل ہو تی ہے۔

بعد سائنس دور میں یہ نظریہ متروک ہو چکاہے۔ اب انسان کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ فکر وجذبات اور احساس کامرکز تمام ترذہن(mind) ہے۔ ا س لیے تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی تفکیری اصلاح کی جائے ۔یہی تزکیہ کااصل طریقہ ہے ۔حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وَمَا يُقَلِّبُ ‌طَائِرٌ ‌جَنَاحَيْهِ فِي السَّمَاءِ، إِلَّا ذَكَرْنَا مِنْهُ عِلْمًا) الزهد لوكيع بن الجراح، حدیث نمبر 522۔علم یعنی معرفت و حکمت کاکوئی سبق سکھاتے تھے۔

 اسپریچول کلاس میں اسی طریقِ تزکیہ کو اختیار کیا گیا ہے ۔ ایک صوفی سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ تصوف کامطلب تصور ہے ۔ میرے نزدیک، قرآن کے الفاظ میں، اس کاجواب یہ ہے کہ تصوف کامطلب توسم (الحجر، 15:75) ہے۔ تو سم کامطلب ہے— مادی تجربات کو معرفت میں ڈھال لینا:

converting material events into spiritual experience

روایتی طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ معرفت کاذریعہ صحبت ہے ۔یعنی کسی بزرگ کے پاس بیٹھنے سے پراسرار طور پر آدمی کے اندر ربانی معرفت پیدا ہوجاتی ہے ۔ گو یا کہ حصول معرفت کاذریعہ صرف کسی بزرگ کی صحبت ہے، نہ کہ تدبروتفکر اور ذاتی محنت ۔ یہ نظریہ مزاج اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہرآدمی اس دنیا میں حالتِ امتحان میں ہے۔ اس دنیا کے لیے خدائی قانون یہ ہے: لَّيۡسَ لِلۡإِنسَٰنِ إِلَّا ‌مَا ‌سَعَىٰ(53:39)۔ یعنی، انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا۔ ایسی حالت میں یہ ماننا کہ ذاتی عمل کے بغیر صرف کسی کی صحبت سے روحانیت یاربانیت حاصل ہو سکتی ہے، ایک متضادنظریہ ہے ۔ کیوں کہ یہ نظریہ اس حکمت کی نفی کررہا ہے جس کو امتحان کہا جاتا ہے ۔

قرآن (3:79)میں ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو، ربانی بنو(كُونُواْ ‌رَبَّٰنِيِّـۧنَ )۔ رِ بّی کے لفظی معنی ہیں: رب والا۔ ربّانی اسی کامبالغہ ہے ۔یعنی بہت زیادہ رب والا۔ رِبّی یاربانی کو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد ہے: خدار خی سوچ(God-oriented thinking) یاخدا رخی زندگی(God-oriented life) ۔یعنی انسان کی وہ حالت جب کہ اس کی سوچ کامرکز خدابن جائے ، جب کہ اس کے جذبات واحساسات پر تمام ترخدا کاغلبہ ہوجائے، جب کہ خدا کی یاداس کی ہستی میں پوری طرح سماجائے۔

یہی وہ چیز ہے جس کو روحانیت(spirituality) کہا جاتا ہے۔ میں سمجھتاہوںکہ دوسرے اکثر شعبوں کی طرح، روحانیت کے دو دور ہیں۔ قبل سائنس دور(pre-scientific era) اور بعد سائنس دور(post-scientific era) ۔ قبل سائنس دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جذبات واحساسات کا مرکز قلب(heart) ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں روحانیت کے حصول کاذریعہ یہ سمجھا جاتا  تھا کہ قلب پر فوکس ڈال کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ سادھوئوں کامیڈیٹیشن (meditation) اور صوفیوں کا مراقبہ اسی طرز فکر کانتیجہ ہے ۔

مگر بعد سائنس دور میں یہ نظریہ بے بنیاد ثابت ہو گیا ۔ اب متفقہ طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ قلب صرف گردش خون(circulation of blood) کاذریعہ ہے ۔ سوچ اور احساسات کا مرکز تمام تر انسان کادماغ ہے۔ سرجری کی ترقی کے بعد یہ کیا گیا کہ آپریشن کرکے انسان کے قلب کو اس کے سینے سے نکال لیا گیا اور اس کی جگہ مکمل مصنوعی قلب (total artificial heart ) لگادیا گیا جو اب اصل قلب کی جگہ پورے جسم کو خون پہنچانے کاکام کرتا ہے۔ مثلاً بی بی سی اردوکی ویب سائٹ پر 2 فروری 2018کو ایک رپورٹ شائع ہوئی ، جس میں برٹش شہری خاتون مزسلواحسین (Selwa Hussain) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جب مز سلوا حسین کا فطری قلب ایک نامعلوم بیماری کی وجہ سےقابل استعمال نہیں رہا تو ان کو2017 میں مکمل مصنوعی قلب لگایا گیا ہے۔ یعنی مشینی قلب، جو ایک بیک پیک (backpack) کے ذریعہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے۔ مشینی قلب کے ساتھ وہ شعوری اعتبار سے ایک نارمل زندگی گزار رہی ہیں (Link: shorturl.at/lqJ89)۔ اسی طرح میڈیکل ایکسپریس ڈاٹ کام پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، امریکا میں ایک خاتون کا فطری قلب جب ناکارہ ہوگیا تو اس کی جگہ ایک مکمل مصنوعی قلب لگایا گیا ہے (Link: shorturl.at/bju35

ان دونوں میڈیکل خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کے بعد انسان کاسینہ فطری قلب سے بالکل خالی ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود اس کی سوچ اور اس کے احساسات ٹھیک ویسے ہی باقی رہے جیسا کہ وہ اس وقت تھے جب کہ فطری قلب اس کے سینے میں موجو دتھا۔ اس طرح کے آپریشن کے بعد یہ ثابت ہوا کہ فکر اور احساس کا مرکز مکمل طور پر  دماغ ہے، نہ کہ قلب۔

اکثرلوگ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں بھی قلب کاذکر اس طرح کیا گیا ہے گو یا کہ دماغ کے علاوہ قلب بھی سوچ اور جذبات کامرکز ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ۔قرآن میں ایسے مواقع پرقلب کا ذکر اس کے ادبی استعمال کے اعتبار سے ہے، نہ کہ اس کے سائنسی مفہوم کے اعتبار سے ۔       

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن میں سوچ کے عمل کے لیے صرف قلب کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے بلکہ عقل اور لب کاحوالہ بھی دیا گیا ہے ۔ یہ دونوں الفاظ قرآن میں تقریبا 65 باراستعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض الفاظ بھی استعمال ہو ئے ہیں جو بالواسطہ طور پر دماغی عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً توسم اور تفکر، وغیرہ۔ اس کے علاوہ قران میں جس مفہوم کے لیے قلب کالفظ آیا ہے ٹھیک اسی مفہوم کے لیے متعدد آیتوں میں سمع اور بصر کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ مثلاً:لَهُمۡ ‌قُلُوبٌ لَّا يَفۡقَهُونَ بِهَا وَلَهُمۡ أَعۡيُن لَّا يُبۡصِرُونَ بِهَا وَلَهُمۡ ءَاذَان لَّا يَسۡمَعُونَ بِهَآ(7:179) ۔ یعنی، ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔

اگر اس طرح کی آیتوں کی بنیاد پر یہ مانا جا ئے کہ سوچ کے عمل کاتعلق قلب سے ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آنکھ اور کان کا تعلق بھی سوچ سے ہے ۔کیوں کہ ان آیتوں میں دیکھنے اور سننے کے جس عمل کا ذکر ہے اس سے مراد سا دہ طور پر کیمرہ یا ٹیپ ریکارڈ کی طرح دیکھنا اور سننا نہیں ہے بلکہ اس سے مرادوہ دیکھنا اور سنناہے جس میں سوچ بھی شامل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جہاں عقل اورلب کاحوالہ ہے وہاں اس سے براہ راست دماغی عمل مراد ہے اور جہاں آنکھ، کان اور دل کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہ الفاظ اپنے معروف ادبی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح بعدسائنس دورمیں تصوف یا روحانیت کا علم پوری طرح بدل گیاہے ۔ا ب روحانیت کاتعلق قلبی وظائف سے نہیں بلکہ اس کاتعلق ذہنی ارتقا کے ایک خاص مرحلے سے ہے۔

اسپریچول کلاس میں میں نے اسی اصول پر لوگوںکا تزکیہ کیا اور ان کے اندر روحانیت لانے کی کوشش کی۔ خدا کے فضل سے نتیجہ صدفی صد کا میاب رہا ۔ہمارے کلاس میں ایسے کئی افراد شریک ہوئے جنہوں نے بتایا کہ وہ برسہا برس تک ہندوگروئوں اور مسلم صوفیوں کے یہاں روحانیت کے حصول کی کوشش کرتے رہے مگر انہیں روحانیت نہیں ملی۔ جب کہ ہمارے کلاس میں ان کواپنی مطلوب روحانیت حاصل ہو گئی ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom