جنت کا استحقاق

جنت بے حد عظیم نعمت ہے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2450)۔وہ بے حد مہنگی قیمت پر کسی کو ملے گی ۔بہت تھوڑے خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت کی لطیف دنیامیں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں ۔جنت میں داخلہ کا پہلاامتحان یہ ہے کہ آدمی معرفت کے درجہ میں اپنے رب کو پائے۔ افکار وخیالات کے جنگل میں وہ سچائی کو دریافت کرے۔ وہ نہ محسوس ہونے والی جنت کو محسوس کرے۔وہ ظاہری ہنگاموں سے گزر کرآخرت کی دنیاکامسافربن جائے۔

اسی طرح جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی سرکشی کا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے آگے جھکادے ۔خود پرست بننے کے تمام محرکات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سچاخداپرست بن جائے۔کشش اورجاذبیت کے بے شمار مراکز سے منہ موڑ کر وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجائے ۔

اسی طرح جنت میں داخلہ صرف اس شخص کے لیے ممکن ہوگاجو منفی حالات کے درمیان ہمیشہ مثبت ذہن پر قائم رہے ۔جو اپنے سینے میں اٹھنے والے حسد اورگھمنڈاورانتقام جیسے جذبات کو دفن کر کے یک طرفہ طورپرلوگوں کے لیے شفقت اورخیرخواہی کا پیکر بن جائے ۔جو ظلم اوربے انصافی کے مواقع کوپانے کے باوجود انہیں استعمال نہ کرے اورہرحال میں اپنے آپ کو عدل وانصاف کا پابند بنالے ۔

جنت ایک نفیس ترین خدائی کالونی ہے ۔اس نفیس کالونی میں صرف وہی روحیں داخل ہوں گی جنھوں نےدنیاکی زندگی میں اپنے اوپرتطہیر کا عمل کرلیاتھا،یعنی تزکیہ کا عمل۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے:جَنَّٰتُ عَدۡنٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَذَٰلِكَ جَزَآءُ مَن تَزَكَّىٰ (20:76)۔ یعنی، ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو اپنا تزکیہ کرے۔

موجودہ دنیاامتحان کی دنیاہے ۔یہاں ہر آدمی حالتِ امتحان میں پیداکیاجاتاہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرناہے کہ وہ اپنی ذات کی تطہیر کا ایک مسلسل عمل شروع کرے ۔یہاں تک کہ اس کی آلودہ شخصیت پاک وصاف ہوکر مزکیّ شخصیت میں بدل جائے ۔

جنتی انسان وہ انسان ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کر رہے ۔جو اندھیروں کے درمیان روشنی کا مینار بن سکے ۔جوزلزلوں اورطوفانوں کے درمیان سکون کا راز پالے ۔جو نفرتوں کے درمیان محبت کا ثبوت دے ۔جو لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود یک طرفہ طورپرانہیں معاف کردے۔ جو کھونے میں بھی پانے کا تجربہ کرے۔

جنتی انسان وہ ہے جو بظاہرخداسے دور ہوتے ہوئے بھی خداسے قریب ہوگیاہو۔جوسورج کی شعاعوں میں خدا کے نور کو دیکھے۔جو ہوائوں کے جھونکے میں لمسِ ربانی کا تجربہ کرے۔ جو پہاڑوں کی بلندی میں خداکی عظمت کاتعارف حاصل کرسکے ۔جو دریائوں کی روانی میں خداکی رحمت کا مشاہدہ کرے ۔جو مخلوقات کے آئینہ میں خالق کا جلوہ دیکھنے لگے۔

خدانے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ یہ بتادیاہے کہ جنتی انسان کی صفات کیاہوتی ہیں ۔جو لوگ دنیاکی زندگی میں اپنے اندرجنتی صفات پیداکریں ،وہ موت کے بعد جنت میں داخلہ کے مستحق قرار پائیں گے۔ جنت وہ معیاری دنیا (ideal world)ہے،جہاں پوری انسانی تاریخ کے مزکیّ افراد آباد کیے جائیں گے۔ یعنی وہ لوگ جو غفلت کی زندگی کو ترک کرکےشعور کی زندگی کو اختیار کریں۔جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں۔ جواپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائیں جو تقوی اور انسانی خیرخواہی سے روکنے والی ہیں ۔مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر انداز کردیں۔نفس کی خواہش ابھرے تو وہ اس کو کچل دیں ۔ظلم اورگھمنڈ کی نفسیات جاگے تو وہ اس کو اپنے اندردفن کردیں۔

جنت میں داخلہ نہ کسی سفارش کی بنیاد پر ہوگا،نہ کسی کے ساتھ نسبت کی بنیاد پر اورنہ کسی پُراسرار عملیات کی بنیاد پر۔جنت میں داخلہ پوری طرح معلوم حقیقت پر مبنی ہے ۔اوروہ یہ کہ جو آدمی موجودہ دنیامیں اپنے قول وعمل کے اعتبار سے جنتی انسان بن کررہے گا،وہ آخرت کی جنت میں داخلہ پائے گا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom