غلط فہمی
مفسر ابن کثیر (وفات 1373ء)نے سورہ بنی اسرائیل (آیت 110) کے تحت ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ: يَا رَحْمَنُ يَا رَحِيمُ، فَقَالَ: إِنَّهُ يَزْعُمُ أَنَّهُ يَدْعُو وَاحِدًا وَهُوَ يَدْعُو اثْنَيْنِ (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ 117)۔ یعنی، مشرکین میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ سجدہ میں کہہ رہے تھے کہ اے رحمن، اے رحیم۔ مشرک شخص نے یہ سن کر کہا کہ یہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ ایک خدا کی دعوت دینے والا ہے، حالاں کہ وہ دو خداؤں کو پکار رہا تھا۔
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح بہت سی شکایتیں اور اعتراضات محض آدمی کی اپنی کم فہمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم ایک خدا کو اس کی کئی صفتوں کے ساتھ پکار رہے تھے۔ کیوں کہ خدا اگر چہ ایک ہے مگر اس کی صفتیں بے شمار ہیں ۔ مگر مذکورہ اعرابی نے صفات میں تعدد کو وجود میں تعدد کے ہم معنی سمجھ لیا اور اس طرح ایک موحد انسان کے بارے میں غلط طور پر یہ رائے قائم کر لی کہ وہ بھی اسی کی طرح مشرک ہے۔
انسان ایک بے حد پیچیدہ مخلوق ہے اس کی زندگی کے لاتعداد پہلو ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے بارے میں رائے قائم کرنا بے حد دشوار کام ہوتا ہے۔ اس میں 50 فی صدسے زیادہ غلط فہمی کا امکان ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ دوسرے شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے میں وہ نہایت محتاط ہو۔خوش گمانی قائم کرنے میں آدمی اگر غیر محتاط ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مگربدگمانی قائم کرنا ہو تو آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ بے حد سنجیدہ ہو ، وہ آخری حد تک احتیاط سے کام لے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس اصول کی ایک مثال یہ ہے کہ خلافت کے لیے آپ اپنے بعد حضرت ابوبکرصدیق کو سب سے زیادہ اہل سمجھتے تھے۔مگر آپ نے کبھی اپنی زبان سے اس کا صراحۃً اظہار نہیں فرمایا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھاکہ آپ کے بعد آپ کے اصحاب خود ہی اس مطلوب فیصلہ تک پہنچ جائیں گے ۔حضرت ابوبکرصدیق کی موجودگی میں وہ کسی اورکو اپناامیر یاخلیفہ نہیں بنائیں گے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد جب امارت کا سوال پیدا ہوا تو صحابہ نے تقریباً اتفاق رائے سے حضرت ابوبکرصدیق کو اپناخلیفہ چن لیا۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس نظیر کے باوجود خلیفہ اول نے اس معاملہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ اپنے بعد خلیفۂ دوم کے معاملہ کو انھوں نے عمومی انتخاب کے اوپر نہیں چھوڑا۔بلکہ صراحت کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو اس منصب کے لیے نامزد فرمایا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ لوگوں کو حضرت عمر فاروق کے بارے میں ایک سخت قسم کی غلط فہمی تھی۔ حضرت عمر فاروق کے مزاج میں شدت تھی ۔لوگ حضرت عمر فاروق کے اخلاص اورقربانی کے معترف تھے۔ مگران کویہ اندیشہ تھاکہ ایک ایساآدمی خلافت کے نازک منصب کے لیے موزوں نہیں جس کے اندرشدت اورتنقید کامزاج پایاجائے۔حضرت عمر فاروق کے بارے میں لوگوں کی اسی غلط فہمی کی بناپر خلیفۂ اول کو یہ اندیشہ تھاکہ اگرانہوں نے خود سے عمر فاروق کو نامزد نہیں کیاتو آپ کے بعد مسلمان شاید ان کو اپناامیر بنانے پر اتفاق نہ کرسکیں گے اوراس طرح عین وہی شخص مسلمانوں کا امیر بننے سے رہ جائے گا جو اپنی خصوصی اہلیت کی بناپر مسلمانوں کی پوری جماعت میں امیر یا خلیفہ بننے کا سب سے زیادہ اہل ہے ۔
مگر یہ غلط فہمی سراسر بے بنیاد تھی ۔اصل حقیقت برعکس طورپر یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ان انتہائی نادر انسانوں میں سے تھے جن کو تاریخ ساز انسان کہاجاتاہے ۔مگر اس غیر معمولی صفت کے باوجود بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتاتھاکہ خلیفۂ دوم کے منصب کے لیے لوگ ان کے نام پر متفق ہوجائیں گے ۔یہی اندیشہ تھاجس کی بناپر خلیفۂ اول کو اس معاملہ میں پیشگی نظیر کے باوجود اجتہاد کرناپڑا۔چنانچہ انھوں نے ذاتی مداخلت کرتے ہوئے عمرفاروق کو اپنے بعدخلافت کے لیے نامزد کردیا۔
خلافت کے تعلق سےحضرت عمر فاروق کے بارے میں لوگوں کی یہ رائےدرست نہ تھی۔حضرت عمر فاروق بے حد اصول پسند انسان تھے۔وہ حق کے معاملہ میں مصالحت کو گوارہ نہیں کرتے تھے۔اس چیز نے ان کے مزاج میں شدت پیداکردی تھی ۔وہ جب بھی کسی کو کوئی غلط بات کہتے ہوئے یاغلط کام کرتے ہوئے دیکھتے تو وہ اس پر سخت تنبیہ وتنقیدکرتے ۔وہ جس چیز کو حق سمجھتے اس کے اعلان میں وہ کبھی کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے ۔اس بناپر لوگ ان سے دوررہنے لگے۔حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خداعمر پررحم کرے،وہ حق کہتے ہیںاگرچہ وہ کڑوا ہو، ان کا سرمایہ حق ہے،اوران کا کوئی دوست نہیں (رَحِمَ اللهُ عُمَرَ، يَقُولُ الحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، تَرَكَهُ الحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيقٌ) سنن الترمذی، حدیث نمبر 3714۔
مگرحضرت عمر فاروق کی شدت صرف ناحق کے خلاف ہوتی تھی، نہ کہ کسی انسان کے خلاف۔ وہ عین اس وقت بھی انسان کے خلاف نفرت سے خالی ہوتے جب کہ وہ اس کی تنبیہ کررہے ہوتے تھے۔ ان کے دل میں عین اس وقت بھی انسان کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتاتھاجب کہ بظاہر وہ اس کے خلاف غصہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ان کی ہرسختی میں ایک نرمی چھپی ہوتی تھی ۔ان کی ہر تنقید کے پیچھے محبت کاجذبہ کارفرماہوتاتھا۔
عام لوگ اس نازک فرق کو نہ سمجھ سکے ۔اس لیے انہیں حضرت عمر فاروق کے بارے میں سخت غلط فہمی پیداہوگئی ۔تاہم جولوگ زیادہ باشعور تھے وہ اس راز کو سمجھتے تھے۔چنانچہ جب حضرت ابوبکر نے حضرت عثمان سے حضرت عمر کے بارے میں پوچھا توحضرت عثمان نے ان کے بارے میں کہاکہ ان کا اندران کے باہر سے بہتر ہے ، اور ہمارے درمیان ان کے جیسا کوئی نہیں ہے (سَرِيرَتُهُ خَيْرٌ مِنْ عَلانِيَتِهِ وَأَنَّهُ لَيْسَ فِينَا مِثْلَهُ) ۔اسی طرح حضرت ابوبکر نے لوگوں کی شکایات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ عمر پر جب خلافت کی ذمہ داری آئے گی تو وہ اپنے آپ نرم ہوجائیں گے (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر،جلد2، صفحہ 425)۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ غلط فہمی کتنی خطرناک چیز ہے ۔غلط فہمی کی بناپر آدمی ایک شخص کے بارے میں بالکل الٹی رائے قائم کرلیتاہے ۔حالاںکہ وہ شخص اس غلط رائے سے بالکل پاک ہوتاہے ۔اس قسم کی منفی رائے غلط فہمی میں مبتلاہونے والے کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے۔ باہر کی دنیامیں سرے سے اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔یہ غلط فہمی بلاشبہ ایک سنگین قسم کا اخلاقی جرم ہے۔ ہر آدمی پر لازم ہے کہ اس جرم سے اپنے آپ کو بچائے ۔
غلط فہمی سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری تدبیر یہ ہے کہ آدمی محض سن کر کسی بات پر یقین نہ کرے۔سنی ہوئی بات اکثر غلط ہوتی ہے ۔کسی معاملہ کی صحیح رپورٹ دینابے حد مشکل کام ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ بہت کم ہوتے ہیں جو کسی واقعہ کو ٹھیک ویساہی بیان کریں جیساکہ وہ ہے۔ اگر ایک آدمی کے دل میں دوسرے آدمی کے خلاف غلط فہمی پیداہوجائے تو فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ غلط فہمی میں مبتلاہونے والا شخص اس آدمی سے ملے اورخود صاحب ِمعاملہ سے تحقیق کرے۔براہِ راست تحقیق کے بغیر کسی کے بارے میں بری رائے قائم کرناسخت گناہ ہے ۔
جو آدمی غلط فہمی میں مبتلاہواس کے اوپر یہ فرض ہے کہ اس نے جس طرح کسی کے بارے میں ایک بری رائے قائم کی ہے اسی طرح وضاحت کے بعد وہ اس بری رائے کو اپنے دماغ سے نکالے اوراپنی غلطی کا کھلااعتراف کرتے ہوئے اپنے ذہن کی اصلاح کرلے ۔جس آدمی کے اندرغلطی کے اعتراف کامادہ نہ ہواس کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی کے بارے میں غلط رائے کو اپنے ذہن میں جگہ دے ۔
تجربہ بتاتاہے کہ غلط فہمی اکثر حالات میں بے بنیاد ہوتی ہے ۔آدمی یک طرفہ رپورٹ یا ناقص معلومات کی بنیاد پر ایک بری رائے قائم کرلیتاہے ۔حالانکہ اگر کھلے ذہن کے ساتھ تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگاکہ وہاں سرے سے ایسی کوئی چیز موجود ہی نہ تھی ۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ یاتو اتناباشعور بنے کہ وہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ لے ،اس کا ذہن اپنے آپ ہی غلط فہمی کو اپنے اندر جگہ دینے سے انکار کردے ۔اوراگر کوئی آدمی اتنازیادہ باشعور نہ ہوتو انسانیت کا دوسرادرجہ یہ ہے کہ وہ غلط فہمی میں پڑنے سے پہلے براہِ راست طورپر اس کی مکمل تحقیق کرے ۔وہ اس وقت تک ہرگز کسی بات کو نہ مانے جب تک وہ تحقیق کی تمام شرطوں کے ساتھ اس کا جائزہ نہ لے چکاہو۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جوہر بری بات کو سنتے ہی اسے مان لیں ۔ایسے لوگ بلاشبہ اسلام سے دور ہیں ۔خواہ بطورخود وہ اپنے آپ کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر سمجھتے ہوں ۔
غلط فہمی دراصل ناقص معلومات کی بنیاد پر کامل رائے قائم کرنے کا دوسرا نام ہے ۔اکثر اوقات ایساہوتاہے کہ ایک آدمی کسی کے بارے میں ایک جزئی بات سنتاہے اوراس سے وہ اس آدمی کی کلی تصویر بنالیتاہے ۔کبھی کسی کا قول اس کے سیاق سے الگ ہوکرسامنے آتاہے اورپورے سیاق کی روشنی میں دیکھے بغیر ایک ایسی رائے قائم کرلی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔کبھی کسی آدمی کے ایک ظاہری پہلوکو دیکھ کر اس کے باطن کے بارے میں ایک نظریہ بنالیاجاتاہے ۔کبھی کسی سنی ہوئی بات کو ٹھیک ویساہی مان لیاجاتاہے حالانکہ مختلف راویوں سے گزر کروہ بات آخر کار ایک ایسی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کا اصل واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔کبھی ایساہوتا ہے کہ آدمی کے علم میں ایک بات آتی ہے اوروہ خود ساختہ تعبیر کے ذریعہ اس کا ایک مفہوم متعین کرلیتاہے حالانکہ یہ تعبیر اصل حقیقت کے بالکل خلاف ہوتی ہے ۔
اس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جو غلط فہمی کا سبب بنتی ہیں ۔غلط فہمی کا یہ معاملہ اتنازیادہ وسیع ہے کہ انتہائی صالح افراد بھی اس کی زد سے مستثنیٰ نہیں ۔اکثر ایساہواہے کہ لوگوں نے کسی کے خلاف انتہائی بھیانک قسم کی رائے قائم کرلی ۔حالانکہ اس کے پیچھے بے بنیاد غلط فہمی کے سوااورکچھ نہ تھا۔
ایسی حالت میں غلط فہمی کے گناہ سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آدمی کسی کے خلاف رائے قائم کرنے میں سخت محتاط ہو۔وہ مکمل تحقیق کے بغیر کبھی ایسی کوئی رائے قائم نہ کرے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ یاتوسرے سے کسی کے بارے میں کوئی رائے ہی قائم نہ کرے اوراگر رائے قائم کرناضروری ہوتو اس کی تحقیق کا حق اداکرے۔رائے قائم نہ کرنے پر کسی کی کوئی پکڑنہیں ۔مگر رائے قائم کرتے ہی آدمی خداکی پکڑ کی زد میں آجاتاہے ۔رائے قائم نہ کرنے والا معذور قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مگر مخالفانہ رائے قائم کرتے ہی اس کا عذر ختم ہوجاتاہے ۔اب اس کا معاملہ یہ ہوجاتاہے کہ یاتووہ دوسرے کے بارے میں اپنی مخالفانہ رائے کو دلیل سے ثابت کرے،یاخود اسی چیز کا مجرم بنے جس کا الزام وہ بے بنیاد طورپر دوسرے کو دیناچاہتاتھا۔
غلط فہمی یابدگمانی کوئی سادہ بات نہیں ۔یہ بے حد ذمہ داری کی بات ہے ۔اگر آپ کسی کے خلاف براگمان کرلیں تو آپ اپنے کو اس خطرہ میں مبتلاکررہے ہیں کہ اگر فریقِ ثانی برانہ ہوتو خدا کی نظرمیں آپ خود اسی برائی کے ذمہ دار قرار پائیں ،جس کا ذمہ دار آپ دوسرے کوسمجھے ہوئے تھے۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6045)۔یعنی جب کوئی شخص کسی کے اوپرفسق کا الزام لگائے یااس کے اوپرکفر کاالزام لگائے تو اس کا الزام خود اسی کی طرف لوٹ آئے گااگر دوسرا شخص ویسانہ ہو۔
بے بنیاد غلط فہمی بھی بلاشبہ ایک الزام کی حیثیت رکھتی ہے ۔وہ کسی کے بارے میں ایک ایسی غلط فہمی میں مبتلا ہوناہے جو باعتبارِ واقعہ درست نہیں ۔ایسی حالت میں غلط فہمی یابد گمانی سے بچناخود اپنے فائدے کے لیے ضروری ہوجاتاہے ۔وہ آدمی کاخود اپنامسئلہ بن جاتاہے ۔کیونکہ فریقِ ثانی میں اگر وہ برائی نہ ہوتو خود بدگمانی کرنے والا اس کا مجرم قرار پائے گا۔
یہ حدیث ِرسول بے حد سنگین ہے ۔اس کا تقاضہ ہے کہ آدمی غلط فہمی یابدگمانی کے معاملہ میں آخر ی حد تک سنجیدہ ہوجائے۔غلط فہمی اگر سادہ نوعیت کی ہو،مثلاًآپ کسی کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ وہ جلد غصہ میں آجاتاہے تو اس میں اس کے لیے کوئی بڑاخطرہ نہیں ۔لیکن اگر کسی کے بارے میں غلط فہمی کی بناپر ایسی سنگین رائے قائم کرلی جائے جو اخلاقی یاشرعی جرم کی حیثیت رکھتی ہوتو ایسی صورت میں معاملہ بے حدسنگین ہوجائے گا ۔ایسی سنگین غلط فہمی گویادو دھاری تلوار ہے ،وہ اگر فریقِ ثانی کو نہ کاٹے تو خود آپ کی ہلاکت کا سبب بن جائے گی ۔
ہر آدمی کو جاننا چاہیے کہ وہ جو کچھ رائے قائم کرتا ہے اپنی معلومات کے دائرہ میں کرتا ہے۔ اب چونکہ حقائق کا دائرہ کسی شخص کی ذاتی معلومات سے بہت زیادہ وسیع ہے، اس لیے ہر وقت یہ امکان ہے کہ اپنی معلومات کے دائرہ میں وہ ایک رائے کو صحیح سمجھ لے۔ حالانکہ وسیع تر حقائق کے اعتبار سے اس کی رائے صحیح نہ ہو ۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ جب دوسرے کے بارے میں رائے قائم کرنا ہو توخوش گمانی کے معاملہ میں وہ حد درجہ فیاض بن جائے اور بد گمانی کے معاملہ میں حد درجہ بخیل۔ یہی عقل کا تقاضا بھی ہے اور یہی خدا کے خوف کا تقاضا بھی ۔