مطالعہ کے بغیر انسانی شخصیت کی تکمیل ممکن نہیں

(مولانا وحید الدین خاں صاحب کاایک انٹرویو)

سوال       :   انسانی زندگی میں آپ مطالعہ کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟

جواب      :  انسانی زندگی میں مطالعہ کی اہمیت بے حد بنیادی ہے۔ غذا اگر جسمانی وجود کے لیے ضروری ہے تو مطالعہ ذہنی وجود کے لیے۔ مطالعہ کے بغیر انسانی شخصیت کی تکمیل ممکن نہیں۔

سوال       : آپ کے اندر مطالعہ کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا؟

جواب      :  میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہاں مطالعہ، خاص طور پر ادبی مطالعہ کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ اس لیے بچپن ہی سے میرے اندر مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا۔ تاہم باقاعدہ شعور کے طور پر میرے اندر مطالعہ کا ذوق اس وقت پیدا ہوا جب میں نے سرجیمز جینز (Sir James Jeans, 1877-1946)کی کتاب پڑھی۔ اس کتاب نے میرے سامنے مطالعہ کی نئی دنیا کھول دی۔

سوال       :  مطالعہ کی غرض کیا رہی ہے؟

جواب      :  میرے مطالعہ کی غرض خاص طور پر دو رہی ہیں— اسلام کو اس کے اصل ماخذ اور قدیم علمائے اسلام کے ذریعہ سمجھنا، اور دوسرے، اسلام کے خلاف جدید فکری چیلنج کو براہِ راست ذرائع سے معلوم کرنا۔ پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اسلام کے تعارف پر اور جدید فکری چیلنج کے رد میں کتابیں تیار کرنا۔

سوال       :  آپ نے کس قسم کی کتابوں سے مطالعہ کا آغاز کیا؟

جواب      : ابتداء ًمیں زیادہ تر ادبی کتابیں پڑھتا تھا۔ اس کے بعد مدرسہ کی تعلیم کے نتیجہ میں اسلامی کتابیں پڑھنے لگا۔ اور اس کے بعد جدید الحاد سے تعلق رکھنے والی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا۔

سوال       : آپ کے مطالعہ کی رفتار کیا ہے؟

جواب      :  میرا مطالعہ اور تحریر دونوں ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں۔ اس لیے مطالعہ کی مقداری رفتار متعین کرنا مشکل ہے۔ میں رات دن بس پڑھتا ہی رہتا ہوں۔اور دورانِ مطالعہ جب کوئی مضمون ذہن میں آتا ہے تو اس کو لکھ لیتا ہوں۔

سوال       :  کن زبانوں کی کتابیں آپ کے مطالعہ میں رہتی ہیں؟

جواب      : عام طور پر میں عربی، انگریزی اور اردو کتابیں پڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی فارسی اور ہندی کتاب یا مضمون بھی پڑھتا ہوں۔

سوال       :  آپ کے مطالعہ کا وقت کیا ہوتا ہے؟

جواب      : میرے مطالعہ کا مقرر وقت نہیں۔ اپنے تمام وقت کو میں مطالعہ ہی میں صرف کرتا ہوں۔ مطالعہ میری ذہنی خوراک ہے۔

سوال       :  مطالعہ کے ابتدائی دور میں آپ کو کس قسم کی ذہنی و فکری کیفیت سے سابقہ پیش آیا ہے؟

جواب      : مطالعہ ابتداءً میرے لیے ذہنی تفریح کے ہم معنی تھا۔ اس کے بعد وہ تلاشِ حق کا ہم معنی بنا۔ اب مطالعہ میرے لیے خدمتِ اسلام کا وسیلہ ہے۔

سوال       :  آپ کے اپنے موضوع یا موضوعات کی اول درجے کی کتابیں آپ کی نظر میں کون سی ہیں؟

جواب      : کسی موضوع کے تاریخی ماخذ کے طور پر تو مجھے بہت سی کتابیں اول درجہ کی نظر آئیں۔ مثلاً تفسیر میں محمد بن احمد بن ابو بكرالقرطبی (وفات1273 ء)کی الجامع لاحکام القرآن، علم حدیث میں ابن حجر عسقلانی (وفات 1449ء)کی فتح الباری، سیرت میں سیرۃ ابن کثیر، وغیرہ۔ اسی طرح جدید ذہن کو سمجھنے کے لیے برٹش فلاسفر برٹرینڈرسل  (Bertrand Russell, 1872-1970) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge)۔ مگر اسلام کو سائنٹفک اسلوب اور جدید فکری مستوی پر پیش کرنے کے لیے کوئی بھی کتاب مجھے اول درجہ کی نظر نہیں آئی۔

سوال       :  کیا کسی موضوع پر تقابلی مطالعہ کا بھی آپ کو موقع مل سکا ہے؟

جواب      : تقابلی مطالعہ کے سلسلہ میں خاص طور پر میں نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔

سوال       :  تقابلی مطالعہ میں کن باتوں کو پیش نظر رکھنا آپ ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب      :  تقابلی مطالعہ کو کامیاب بنانےکی دو لازمی شرطیں ہیں— گہرا مطالعہ، اور موضوعیت۔

سوال       :  ریسرچ اور تحقیق کے لیے مطالعہ میں کن باتوں کو پیش نظررکھنا ضروری خیال کرتے ہیں؟

جواب      : علمی ریسرچ کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع کا مطالعہ پیش نظر ہے، اس کی براہِ راست کتابوں کو پڑھا جائے اور جو کچھ پڑھا جائے غیر جانبدارانہ ذہن کے تحت پڑھا جائے۔

سوال       :  تصنیف و تالیف کا کام کرنے والوں کو مطالعہ میں کن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟

جواب      : کسی مصنف کی تصنیف کو اس کے مطالعہ کا نتیجہ ہونا چاہیے، نہ کہ تصنیف ہی مطالعہ کا محرک ہو۔

سوال       :   آپ کے مطالعہ کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟

جواب      : مجھے علم سے دلچسپی ہے۔ میں ہر اس کتاب کو پڑھتا ہوں جو علمی اسلوب میں لکھی گئی ہو۔

سوال       :  حاصل مطالعہ کو محفوظ رکھنے کے لیے آپ کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں؟

جواب      : حاصل مطالعہ کو محفوظ رکھنے کے لیے میں قَيِّدُوا ‌الْعِلْمَ بِالْكِتَابَةِ (علم کو لکھ کر محفوظ کرو) پر عمل کرتا ہوں۔ حافظہ خواہ کتنا ہی اچھا ہو وہ ہرگز کتاب کا بدل نہیں ہے۔

سوال       :  کیا آپ دوران مطالعہ کتاب کے اہم جملوں یا پیراگراف کو نشان زد بھی کرتے ہیں؟

جواب      : اگر ذاتی کتاب ہو تو مطالعہ کے دوران میں ضروری نشانات کرتا رہتا ہوں۔ مگر لائبریری کی کتابوں پر نشانات لگانا مجھے پسند نہیں۔

سوال       :  سفر میں آپ کس طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

جواب:سفر میں زیادہ تر میں اخبار یا رسالہ جیسی ہلکی پھلکی چیزیں پڑھتا ہوں۔

سوال       :  کیا آپ مطالعہ برائے تفریح یا مطالعہ برائے وقت گزاری کو بھی روا رکھتے ہیں اور اگر روا رکھتے ہیں تو کس حد تک؟

جواب      : تفریح یا وقت گزاری کے لیے مطالعہ اس شخص کو روا ہے جو سنجیدہ مطالعہ نہ کر سکتا ہو۔

سوال       :  آپ کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں؟ ترجیحی ترتیب کے ساتھ۔

جواب      : میرے پسندیدہ موضوعات یہ ہیں: تمام اسلامی موضوعات، اور تمام مخالف ِاسلام موضوعات۔

سوال       :  ادب میں آپ کس نظریے کے حامی ہیں؟

جواب      : ادبی مطالعہ سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کو میں صرف ضیاعِ وقت سمجھتا ہوں۔

سوال       :  ایک ادیب یا شاعر کی زندگی میں آپ مطالعہ کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟

جواب      : ادیب یا شاعر کو صرف یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب یا شاعری کو چھوڑ دے۔

سوال       :  وہ کون سی کتابیں ہیں، جنہیں آپ اپنی پسندیدہ کتابوں میں شمار کرتے ہیں اور اس کی پسندیدگی کے اسباب کیا ہیں؟

جواب      : تاریخی ماخذ کے طور پر مجھے بہت سی کتابیں پسند ہیں۔ مگر جدید علمی اسلوب میں اسلام کی ترجمانی کرنے کے لیے جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے کوئی کتاب مجھے پسند نہیں۔

سوال       :  آپ کے پسندیدہ مصنفین کون کون سے ہیں؟ وجہ پسندیدگی پر بھی روشنی ڈالیے؟

جواب      : دورِ جدید کے مسلم مصنفین میں سے کوئی مصنف مجھے پسند نہیں۔ ان میں سے کسی کی کتاب میرے نزدیک (جدید)علمی اسلوب پر نہیں ہے۔

سوال       :  آپ کو سب سے زیادہ کس مصنف نے متاثر کیا؟

جواب      : مجھے سب سے زیادہ میرے شعورِ فطرت نے متاثر کیا۔ میرے نزدیک سب سے بڑی کتاب فطرت کی کتاب ہے۔

سوال       : آپ کے پسندیدہ ادیب و شاعر کون کون سے ہیں؟ انہیں دوسروں کے مقابلے میں آپ کیوں ترجیح دیتے ہیں؟

جواب      : مجھے کوئی ادیب یا شاعر پسند نہیں۔ ادب اور شاعری کو میں ایک فطری صلاحیت کا غلط استعمال سمجھتا ہوں۔

سوال       :  کیا آپ کو اجتماعی مطالعہ کا موقع میسر آتا ہے؟

جواب      : اجتماعی مطالعہ کا ذوق میرےاندر نہیں ہے۔

سوال       :  آپ کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں یا دوسروں کی کتابوں اور لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہیں؟

جواب      : میں حسب مقدور کتابیں خریدتا ہوں ، ورنہ دوسروں سے یا لائبریری سے مستعار لے کر پڑھتا ہوں۔

سوال       :  کیا آپ کی کوئی ذاتی لائبریری بھی ہے؟ اسے درست رکھنے کے لیے آپ کیا صورت اختیار کرتے ہیں؟

جواب      : میری ذاتی لائبریری ہے۔ اس کو درست رکھنے کے لیے میں یہ کرتا ہوں کہ ہر کتاب کو اس کی متعین جگہ پر رکھتا ہوں۔

سوال       : مطالعہ کے تعلق سے اپنا کوئی خاص تجربہ؟

جواب      : مطالعہ کے سلسلہ میں میرا تجربہ یہ ہے کہ آدمی لکھنے سے زیادہ پڑھنے پر دھیان دے۔ ذاتی طور پر میری تحریر میرے مطالعہ کا حاصل (by-product) ہوتی ہے۔

سوال       :  مطالعہ کے شائقین کے لیے اگر کوئی تجویز یا مشورہ ہو تو پیش فرمائیں؟

جواب      : تمام بہترین کتابیں سنجیدہ اسلوب میں ہوتی ہیں۔ اس لیے مطالعہ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سنجیدہ مطالعہ کا ذوق اپنے اندر پیدا کرے۔ سطحی چیزوں کا مطالعہ آدمی کے اندر سطحی مزاج پیدا کرتا ہے، اور گہری چیزوں کا مطالعہ اس کے اندر گہرے فکر کی پرورش کرتا ہے۔ مطالعہ کا مقصد صرف واقفیت میں اضافہ نہیں، بلکہ بصیرت میں اضافہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے : یک من علم را دہ من عقل می باید (ایک حصہ علم کے لیے دس حصہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے )۔ بصیرت کے بغیر علم سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ۔

(بحوالہ: میرا مطالعہ ، مرتب تابش مہدی،نئی دہلی، 1995، صفحات 209-212 )

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom