حالات کی رعایت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت ملی تو آپ کو خداکی طرف سے حکم دیاگیاکہ ایک خداکی عبادت کرواورخداکے پیغام کولوگوں تک پہنچائو۔مگر آپ نے ایسانہیں کیاکہ فوراًکھلے مقامات پر جائیں ،سب کے سامنے نماز پڑھیں یابلندآواز سے لوگوں کو خداکی طرف پکارناشروع کردیں۔ اس کے برعکس، آپ نے ابتدائی چند سال تک چھپ کر نماز پڑھی اورانفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ خفیہ انداز میں تبلیغ کی۔

یہ حالات کی رعایت تھی ۔حالات کی رعایت اسلام کا ایک اہم اصول ہے ۔قرآن وحدیث میں کوئی حکم مطلق انداز میں دیاگیاہوتب بھی یہ دیکھناہوگاکہ ہمارے حالات کے لحاظ سے اس کی تعمیل کا حکیمانہ طریقہ کیاہے ۔حالات کے اعتبار سے جوقابلِ عمل صورت ہو اسی کے مطابق حکم کی تعمیل کی جائے گی ۔حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے آزادانہ انداز اختیار کرنانہ اسلام کا طریقہ ہے اورنہ پیغمبراسلام کی سنت۔

اس طریقہ کودوسرے الفاظ میں فطری طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس دنیامیں کسی بھی معاملہ میں نتیجہ خیز جدوجہد وہی ہوسکتی ہے جس میں حالات کی پوری رعایت شامل ہو۔حالات کی رعایت نہ کرنافطرت سے ٹکراناہے اورفطرت سے ٹکرانے کی تعلیم اسلام میں نہیں دی گئی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری 23سال کی پیغمبرانہ مدت میں اسی طرح حالات کی رعایت سے کام کیا۔آئندہ بھی آپ کے ماننے والوں کے لیے یہی صحیح طریقہ ہے کہ وہ جس ماحول میں ہوں اس کو سمجھیں اور اس کو بخوبی سمجھ کرحالات کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں ۔اس کے بغیرانھیں خداکی نصرت نہیں مل سکتی ۔

حالات کی رعایت ،دوسرے لفظوں میں فطرت کی رعایت ہے ۔اس دنیاکے خالق نے جس قانون کے تحت اپنی دنیاکوبنایاہے ،اس سے مطابقت کرنے کانام حالات کی رعایت ہے ۔یہ رعایت کسی مقصد میں کامیابی کے لیے لازمی طورپرضروری ہے ،خواہ وہ مقصددین سے تعلق رکھتا ہو یا دنیا سے ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom