حدیث کامطالعہ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں میری رضاعی ماں میرے پاس مدینہ آئیں۔ اس وقت وہ شرک پرتھیں اور قریش کی حلیف تھیں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے پوچھا:يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ:صِلِيهَا ( مسند احمد، حدیث نمبر 26994)۔یعنی، میں نے پو چھا کہ اے خدا کے رسول،میری مشرک ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے کچھ چاہتی ہے ۔ کیا میں انھیں صلہ رحمی کے طورپر کچھ دوں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، ان کودو۔
یہ حدیث بظاہر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہے، خواہ ومشرک اور کافرہی کیوں نہ ہو۔ حدیث کی کتابوں میں وہ اسی طرح کے باب کے تحت لکھی ہوئی ملے گی ۔مگر کسی حدیث کو سمجھنے کے لیے صرف اس کے ’’ ترجمۂ باب‘‘ کو دیکھنا کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ حدیث کے متن پر گہرائی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی آدمی کے اوپر اس کے پورے معانی کھل سکتے ہیں۔
اس حدیث سے حقوقِ والدین کے مسئلہ کے علاوہ مزید یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس زمانہ کاواقعہ ہے جب کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خاتمۂ جنگ کامعاہدہ ہو گیا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ مکہ کے مشرکین مدینہ آنے لگے اور مدینہ کے مسلمان مکہ جانے لگے۔
عقل عام یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اس آمدورفت میں صرف’’ صلہ ٔرحمی‘‘ کامسئلہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ آپسی گفت و شنید بھی ہو نے لگی۔ آبائی مذہب اور پیغمبر انہ مذہب کاتقابل کیا جانے لگا۔ خودساختہ مذہب اور الہامی مذہب کافرق لوگوں پر واضح ہونے لگا۔
اس طرح یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ کی تدبیر نے جنگی ماحول کو پرامن دعوتی ماحول میں تبدیل کردیا۔ مکہ اور مدینہ میں جہاں اس سے پہلے تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی تھی، وہاں مذہبی انٹرایکشن ہونے لگا۔ اس انٹرایکشن کا جومثبت نتیجہ ظاہر ہوا، اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔