نظامِ فطرت
ایک شاعر کا قطعہ ہے ۔ اپنے ان شعروں میں اس نے نہایت سادہ طور پر زندگی کی حقیقت بتادی ہے ۔ وہ قطعہ یہ ہے:
کہا: کیا اونٹ پر بیٹھوں کہا: ہاں اونٹ پر بیٹھو
کہا :کوہان کاڈر ہے کہا :کوہان تو ہو گا
کہا: دریا میں کیا اتروں کہا: دریا میں ہاں اترو
کہا :طوفان کاڈرہے کہا :طوفان تو ہو گا
کہا: کیا پھول کو توڑوں کہا: ہاں پھول کو توڑو
کہا: پَر خار کاڈرہے کہا: پَر خار تو ہوگا
یہی موجودہ دنیا میں زندگی کی حقیقت ہے۔ یہاں اونٹ ہے تو کوہان بھی ہے۔ یہاں ہموار پیٹھ والا کوئی اونٹ موجود نہیں۔ یہاں دریا میں طوفان کا مسئلہ بھی ہے، یہاں کوئی ایسا دریانہیں پایا جاتا جس میں سکون ہی سکون ہو، تموج(waves) نام کی کوئی چیزوہاں موجود نہ ہو۔ اسی طرح یہاں خدا کے اگائے ہوئے باغ میں اگر خوب صورت پھول ہیں تو اسی کے ساتھ خار (نوک دار کانٹے) بھی ۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو آدمی کوئی چیز حاصل کرنے کا خواہش مند ہوا س کو پیشگی طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ یہاں ترقی کا سفر کبھی ہموار راستوں سے طے نہیں ہوتا۔ یہاں مسائل پر قابو پانے کے بعد ہی کسی آدمی کے لیے کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں۔ جو آدمی مسائل ومشکلات کو عبور کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو، اس کو خدا کی اس دنیا میں کسی قسم کی کامیابی کی امید بھی نہ رکھنا چاہیے۔
خدا کی دنیا ویسی ہی رہے گی جیسا کہ اس کو بنا یا گیا ہے۔ اس کو بدلنا یقینی طور پر ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے یہاں زندگی اور کامیابی کی صرف ایک صورت ہے — دنیا میں قائم شدہ نظامِ فطرت سے وہ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلے۔ اس کے سوا ہر دوسری صورت آدمی کی ناکامی میں اضافہ کرنے والی ہے، نہ کہ اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچا نے والی۔