نظراندازکرنا
پیغمبراسلام مکہ میں 13سال رہے ۔اس مدت میں وہ تقریباًروزانہ کعبہ میں جاتے تھے۔ وہاں اس وقت 360بت رکھے ہوئے تھے۔یہ عربوں کے مختلف قبائل میں پوجے جانے والے بت تھے۔مکہ کی مرکزیت قائم کرنے کے لیے اہلِ مکہ کے سرداروں نے یہ تمام بت کعبہ میں اکٹھاکردیے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ان کو دیکھتے تھے مگر مکی دور میں کبھی آپ نے ان کو توڑنے یاپھینکنے کی کوشش نہیں کی۔
اس سے اسلام کا ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے ۔وہ یہ کہ وقت سے پہلے کوئی کام نہ چھیڑاجائے ۔مکی دور میں آپ نے ان بتوں کو نظر انداز کیا۔مگر بعد کو جب مکہ فتح ہوگیاتو آپ نے فوراًان کو نکال کر کعبہ کو ان مشرکانہ علامتوں سے پاک کردیا۔
اسلام میں اقدام کرنابھی ہے ۔مگر اسی کے ساتھ اسلام میں نظر انداز کرنابھی ہے ۔اقدام کے وقت اقدام کرناضروری ہے ۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ جہاںاقدام کا موقع نہ ہو، وہاں سختی کے ساتھ نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے۔خواہ بظاہر وہ کتنا ہی سنگین یااشتعال انگیز معاملہ کیوں نہ ہو۔
حال میں کسی مسئلہ کو اعراض کے خانہ میں ڈالنامستقبل میں اس کے حل کا دروازہ کھولناہے ۔ اور بے وقت اقدام کرناحال اورمستقبل دونوں میں صرف نقصان کاباعث ہوتاہے ۔نظرانداز کرنے کی پالیسی دراصل انتظار کرنے کی پالیسی کادوسرانام ہے ۔
نظر انداز کرناایک دانش مندانہ پالیسی ہے ،نہ کہ کسی قسم کی بزدلی ۔نظرانداز کرنادوسرے لفظوں میں نظام ِ فطرت سے مطابقت ہے ۔اورنظرانداز نہ کرنا،نظام فطرت کے خلاف جنگ۔کوئی شخص یاگروہ اتناطاقتور نہیں کہ وہ فطرت سے لڑکرکامیاب ہوسکے۔اس دنیامیں ہرایک کے لیے صرف ایک راستہ ہے ۔اوروہ نظام ِفطرت سے مطابقت رکھناہے ۔اس کے بغیرموجودہ دنیامیں کسی کے لیے حقیقی کامیابی ممکن نہیں — نظر انداز کرنابے عملی نہیں،نظرانداز کرناباعمل انسان کاایک اصول ہے ۔