نئے سال کا پیغام

مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں لکھا ہے— "صبح ہر ایک کے لیے آتی ہے۔ مگر روشن صبح کوصرف وہ شخص دیکھتا ہے جو صبح کے وقت اپنی آنکھ کھلی رکھے۔جو آدمی اپنی آنکھیں بند کر لے اس کے لیے کوئی صبح صبح نہیں۔" یہ اصول موجودہ دنیا کے ہرانسان کے لیے ہے، اور ہر ایک فیلڈ کے لیے ۔ صبح کودیکھنے کا مطلب ہے مواقع کو پاکر اس کو اویل (avail)کرنا۔ نیا سال گویاخدا کی طرف سے 365 دنوں کا نیا موقع ہے۔ مگر جس طرح دوسری چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اسی طرح خدا کے دیے ہوئے مواقع کو اویل کرنے کی بھی ایک قیمت (price) ہے۔ وہ قیمت کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ قیمت ہےاپنے آپ کو ایک سنسیر (sincere)انسان بنانا، زندگی کے حکیمانہ اصولوں کو اپنانا اور غیر حکیمانہ روش کو ترک کرنا۔ اس کی وضاحت کے لیے ذیل میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کچھ تحریریں پیش کی جارہی ہیں(فرہاد احمد)۔

انسان کی خصوصیت

انسان ایک ذی حیات مخلوق ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، موجودہ دنیا میں اندازہ کے مطابق، تقریباًایک ٹریلین (one trillion) کی تعداد میں ذی حیات اشیاء (living things) پائی جاتی ہیں۔ان تمام ذی حیات چیزوں میں انسان ایک خصوصی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ تمام اشیاء کامل طور پر قانون فطرت (law of nature) کی پابند ہیں۔ پوری دنیا میں انسان ایک واحد مخلوق ہے، جس کو کامل آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے عمل کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی امتیازی صفت کو قرآن میں خلافت (2:30) اور امانت (33:72)کہا گیاہے۔

اسی صفت خاص کی بنا پر انسان کے لیے اگلے دورِ حیات میں ابدی جنت کا انعام ہے۔ دوسری ذی حیات اشیاء کے برعکس، انسان کو اپنی زندگی میں ایک امتیازی عمل کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ اس کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہوناہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت صحیح راستہ پر چلنا ہے، اس کو خود اپنے ارادے کے تحت سیلف کنٹرول (self control) کی زندگی گزارنا ہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت اطاعت کی زندگی اختیار کرنا ہے۔یہی انسان کا امتیاز ہے۔ مگر ہر عطیہ کے ساتھ ہمیشہ ایک ذمہ داری شامل رہتی ہے۔ چنانچہ انسان کے اس امتیاز کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو امتحان (test) کہا جاتا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے۔ آزادی کے باوجود وہ اللہ کا فرمانبردار بن جائے۔ آزادی کے باوجود وہ اپنے آپ کو سرکشی اور بے راہ روی سے بچائے۔ وہ خود دریافت کردہ سچائی پر کھڑا ہو، اور خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا طریقہ اختیار کرے۔ اسی خود انضباطی کی روش کو قرآن اور حدیث میں لوجہ اللہ اور لاجل اللہ کہا گیا ہے۔ یہ عمل جو انسان سے مقصود ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر خالق نے سب سے بڑا انعام مقدر کیا ہے۔ ایک ایسا انعام جو کسی بھی دوسری مخلوق کو ملنےوالا نہیں، یعنی ابدی جنت ۔

اپنی تعمیر آپ

ہندستان ٹائمس (2جنوری 1993)میں صفحہ 11 پرمسٹر جے ایس یا دو کا مضمون ہے ۔ اس کی سرخی مجھے پسند آئی۔ اس کے الفاظ یہ ہیں — مصیبت کو مواقع میں تبدیل کرلینا:

Turning adversity into an opportunity.

یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ اس دنیا میں مصیبتیں اور دشواریاں بہرحال پیش آتی ہیں۔ ان مصیبتوں اور دشواریوں کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ،کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ مصیبتوں کو مواقع کار میں تبدیل کرلیا جائے۔

مصیبت کو مواقع میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟انسانی سماج کے اعتبار سے اس کا رہنمایانہ اصول قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَاِنْ ‌تَصۡبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لَا يَضُرُّكُمۡ كَيۡدُهُمۡ شَيۡـًٔا (3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔

قرآن کی یہ آیت فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں سازش (conspiracy)کا ہونا، اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہوناہے۔ جن لوگوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو، اُن کے لیے دوسروں کی سازش اور دشمنی غیر موثر ہو کر رہ جائے گی، وہ اُن کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔

صبر کوئی انفعالی صفت (inaction)نہیں۔ صبر کا مطلب وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس کو سیلف کنٹرول (self control) کہاجاتا ہے، یعنی دوسروں کے پیدا کردہ مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور خود اپنی مثبت سوچ کے تحت اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی سوچ خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) نہ ہو، بلکہ وہ خدا رُخی سوچ (God-oriented thinking)  ہو۔ سماج کے اندر اُس کا سلوک خدا کی تعلیمات کے مطابق ہو، نہ کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے مطابق۔ جو لوگ صبر اور تقویٰ کی اِس روش کو اختیار کریں، اُن کے خلاف دوسروں کی منفی کارروائیاں اپنے آپ بے اثر ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی غیر مطلوب واقعہ ہمیشہ دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں پیش آتا ہے، نہ کہ صرف یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں۔

یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ کوئی شخص یا گروہ معتدل ذہن کے تحت کسی کے خلاف کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کرتا۔ ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی منفی کارروائی صرف اُس وقت کرتاہے، جب کہ اُس کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ ہر منفی کارروائی کسی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں جوابی طورپر پیش آتی ہے۔ صبر اور تقوی آدمی کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صبر اور تقویٰ کسی شخص یا گروہ کے لیے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ ایسا شخص یا گروہ کسی بھی حال میں دوسرے کو مشتعل کرنے والا کام نہیں کرے گا، اِس لیے فطری طور پر وہ دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی جوابی کارروائی سے بھی محفوظ رہے گا۔

یہ فطرت کا قانون ہے جس کو خود خالقِ فطرت نے مقرر کیا ہے۔ ایسی حالت میں سازش کے خلاف چیخ و پکار کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو داخلی طورپر مستحکم بنایا جائے، خود اپنے اندر زیادہ سے زیادہ صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔ اِس کے بعد شکایت کے اسباب اِس طرح ختم ہوجائیں گے، جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں۔

خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God)  کے مطابق، زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع (opportunities)۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ، اسلام کے مطابق، یہ ہے کہ — مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے:

Ignore the problems, avail the opportunities

مسائل سے الجھنا، صرف اُس وقت کو ضائع کرنا ہے جو اِس دنیا میں ہم کو زندگی کی مثبت تعمیر کے لیے ملا ہوا ہے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی اسلام کا طریقہ بھی۔

مواقع کی دنیا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (14 ستمبر 2007) میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس رپورٹ کا ایک جزء یہاں درج کیا جارہا ہے۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک مسلمان عظیم ہاشم پریم جی (پیدائش 1945)اِس وقت(2007 میں) پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ "انڈیا" میں ہوا، جہاں کے بارے میں عام طورپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

Premji richest Muslim tycoon: New York: India’s software czar Azim Premji now has a new nomenclature  - the world’s richest Muslim entrepreneur  - as he holds more wealth than any other Muslim outside the Persian Gulf royalty, a US media report said.   (The Times of India, New Delhi, September 14, 2007, p. 25)

عظیم ہاشم پریم جی کے اِس واقعے پر غور کیجیے تو اِس سے ایک بہت بڑی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ ایک عالمی قانون کو بتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا مواقع (opportunities) کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوتے(الانشراح، 94:5-6)۔ کو ئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو بدل سکے، یا وہ اس قانون کو منسوخ کردے۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ وہ قرآن کی آیت،لَا ‌تَبۡدِيلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ(10:64) کے عمومی حکم میں شامل ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے:

The Word of God shall never change.

مقابلے کی دنیا

ایک ہندستانی نوجوان بزنس کے لیے باہر کے ایک ملک میں گئے۔ یہ بیرونِ ملک کے لیے ان کا پہلا سفر تھا۔ دو ہفتے کے بعد وہ اپنے سفر سے واپس آئے۔ میںنے پوچھا کہ آپ نے اپنے اِس بیرونی سفر میں سب سے بڑا تجربہ کیا حاصل کیا۔ انھوں نے ایک لمحہ سوچا اور اس کے بعد کہا— یہ کہ آج کی دنیا میں انا کے لیے کوئی جگہ نہیں:

Ego has no place in today's world.

یہ بے حد اہم بات ہے۔ ایک آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے ماحول میں لاڈ پیار (pampering) کے ماحول میں رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر کے اندر اس کی شخصیت ہی مرکزی شخصیت ہے۔ دوسرے لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہے۔ گھر کے ماحول میں اس کی انا (ego) ہی مرکزی شخصیت کا درجہ رکھتی ہے۔

لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بالکل مختلف ماحول ہے۔ یہاں مکمل طورپر مقابلہ اور مسابقت (competition) کا ماحول ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے، وہ اُس کے ذاتی جوہر (merit) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انسان کے ذاتی جوہر کے سوا، کسی اور چیز کی یہاںکوئی قیمت نہیں۔ باہر کی دنیا مکمل طورپر اِس اصول پر قائم ہے— مقابلہ کرکے جیو، یا مر جاؤ:

Compete, or perish

یہ زندگی کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کو اِس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اِس امتحان کے لیے تیار کریں۔ اِس معاملے میںکوئی بھی دوسری چیز ذاتی تیاری (self-preparation) کا بدل نہیں بن سکتی۔ ذاتی تیاری ہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو مقابلے کی اِس دنیا میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ موجودہ دنیا حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی غیر حقیقی بنیاد پر کامیابی کا حصول اِس دنیا میں ممکن نہیں۔

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی تربیت نہ صرف افراد سازی کا عمل ہے، بلکہ یہ سماج کی ترقی کا سب سے بنیادی قدم ہے۔ تربیتِ اولاد کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے:أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَھُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)۔یعنی اپنی اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔

اس حدیث میں ادبِ حَسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کے لیے بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔

والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنی ہوگی۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش (duty conscious) بنائیں، نہ کہ رائٹ کانشش (right conscious

دریافت، دریافت، دریافت

جاپان کی ایک مثل ہے کہ — ہر دن کوئی نئی بات دریافت (discover) کرو، خواہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کا نیا طریقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مثل مادّی دریافتوں کے بارے میں ہے۔یہی اصول زیادہ بڑے پیمانے پر معرفت (realization)اور روحانیت (spirituality) کے معاملے پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ روحانیت اور معرفت کوئی جامد چیز نہیں۔ وہ درخت کی مانند ایک مسلسل ترقی پذیرچیز (growing entity)ہے۔

اصل یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انسانی دماغ کے باہر جو حقائق کی دنیا (universe of facts) ہے، وہ بھی لامحدود ہے۔ایسی حالت میں جو آدمی اپنے ذہن کو مسلسل طورپر بیدار رکھے ا ور یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر دن بلکہ ہر لمحہ نئی حقیقتوں کو دریافت کرتا رہے گا۔ اس کے لیے دریافتوں کا خزانہ کبھی ختم نہ ہوگا۔جس طرح مادی خوراک جسم کی غذا ہے، اُسی طرح روحانی دریافتیں معرفت کی غذا ہیں۔ مسلسل مادی خوراک جسم کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اِس طرح مسلسل روحانی دریافتیں کسی انسان کے لیے معرفت اور روحانیت کی زندگی اور ارتقا کی ضمانت ہیں۔

یہ دریافت گویا کہ ایک فکری پراسس (intellectual process) ہے۔ اِس پراسس کو مسلسل طورپر جاری رکھنے کی شرطیں صرف دو ہیں — غور وفکر کرنا، اور اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچانا۔جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں پائی جائیں، وہ ضرور دریافتوں والا انسان بن جائے گا۔ اس کے بعد کوئی بھی چیز اس کو نئی نئی دریافتوں تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔

دریافت روح کی زندگی ہے، دریافت ذہن کے لیے ذریعۂ ارتقا ہے۔ دریافت کسی انسان کو مکمل انسان بناتی ہے۔ دریافت کے بغیر کوئی انسان ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔

مسئلہ نہیں حل

ایک بار کا واقعہ ہے۔ ایک سفر میں میں ایک فیکٹری کو دیکھنے کے لیے گیا۔میں اس کے مینیجر کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِس اثنا میں فیکٹر ی کا ایک کارکن کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کہا: سر، پانی کی سپلائی رک گئی ہے۔ ہمارا کام بند ہوگیا ہے۔ مینیجر نے یہ بات سنی تو اس نے تقریباً چیخ کر کہا: پرابلم مت لاؤ، سلوشن لاؤ۔ کارکن واپس گیا اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ واپس آیا۔ اس نے کہا کہ میںنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، سب کا کہنا یہ ہے کہ کارپوریشن کے واٹر سپلائی کے بجائے، یہاں بورِنگ کرکے خود اپنے پانی کا انتظام ہونا چاہیے۔ اِس کے بعدمینیجر نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی ٹھیکے دار سے کہا کہ ہماری فیکٹری میں بورنگ کی ضرورت ہے۔ آپ آج ہی اُس کا کام شروع کردیں۔ اگلے دن فیکٹری میں پانی کا ذاتی انتظام ہوچکا تھا۔

یہی کام کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، یا آپ کسی کمپنی میں کام کررہے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا کام شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ آپ ذمے داروں کے پاس نہ شکایت لے جائیے اور نہ احتجاج۔ آپ ان کو بتائیے کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے۔ اور پھر آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جائیں گے۔

اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور آپ وہاں کسی بات کو لے کر شکایت کرتے ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں ایک غیر جانب دار شخص بن کر رہ رہے ہیں۔ لیکن جب آپ مسئلے کا حل بیان کریں، تو آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جاتے ہیں۔ اب ادارہ آپ کو غیر کی نظر سے نہیں دیکھے گا، بلکہ اپنی تنظیم کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے گا۔ یہی زندگی کا صحیح طریقہ ہے۔ اِسی طریقے میںآپ کی اپنی کامیابی بھی ہے، اور ادارے کی کامیابی بھی۔

کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنادے۔ وہ دوسروں کے لیے سرمایہ (asset) بن جائے، نہ کہ بوجھ (liability) ۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اِس کے سوا اِس دنیا میں کامیابی کا کوئی اور طریقہ نہیں۔

بااصول زندگی

دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust)کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option)  کسی کے لیے ممکن نہیں۔

اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے۔ البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ صرف مفاد(interest) کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ صابرانہ روش کی بنا پر ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔

اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ (adjustment)ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔ مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیرمسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر پُر امن انداز میں جاری رہے۔ محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر ِ عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔

مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception)  نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency)  کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔

اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میں اخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ، اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔

یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔

مسلمان کی اصل حیثیت

اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان دین ِ خداوندی کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میںاُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔

قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (الاعراف،7:68) سے ہوتا ہے، یعنی مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی۔ دعوتی اخلاق کا تقاضا ہے کہ داعی کے دل میں اپنے مدعو کے لیے صرف مثبت جذبات ہوں، منفی جذبات سے اُس کا دل مکمل طورپر خالی رہے۔ اِسی کا نام یک طرفہ خیر خواہی ہے۔ اِس قسم کی یک طرفہ خیرخواہی کے بغیر داعی اپنی داعیانہ ذمّہ داری کو ادا نہیں کرسکتا۔

موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے ناخوش گوار تجربات پیش آتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔

مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے، کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔

قرآن کی سورہ الاحزاب میں ایک حکم اِن الفاظ میں آیا ہے:وَدَعۡ ‌أَذَىٰهُمۡ وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ (33:48 )۔ یعنی اُن کی ایذاؤں کو نظر انداز کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نہ مانگ کر اللہ سے مانگو، مطالباتی طریقہ چھوڑ کر دعا کا طریقہ اختیار کرو۔ اِسی لیے ہر پیغمبر نے اپنی مدعو قوم سے کہا :لَآ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ ‌مَالًا(11:29) ۔یعنی میں تم سے کسی مادّی فائدے کا  طالب نہیں ہوں۔ میں صرف دینے والا ہوں، نہ کہ تم سے کوئی چیز لینے والا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مدعو قوم کے مقابلے میں، حقوق (rights)کے نام پر مطالباتی مہم چلانا، پیغمبرانہ سنت کے مطابق، سرے سے جائز ہی نہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نبوت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ اِس اعتبار سے، مسلمان ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں، یعنی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے  (البقرہ2:143) ۔ جو لوگ اِس فرض کو ادا نہ کریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ خدا کے نزدیک، وہ پیغمبرآخر الزماں کے امتی ہونے کا حق اپنے لیے کھو دیں۔

زندگی کا فارمولا

انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے — آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔

انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔

انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔

مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میں بیماری، حادثہ ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔

یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom