حبِّ شدید
محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ جائز حدود میں آدمی کسی بھی چیز سے محبت کر سکتا ہے۔ مگر حبِّ شدید صرف ایک اللہ سے ہونا چاہیے،یعنی شدید قلبی تعلق۔ صرف اللہ کو یہ حق ہے کہ انسان اپنے جذباتِ محبت کو سب سے زیادہ اس سے وابستہ کرے، اس کی قلبی شیفتگی (strong affection) کا سب سے بڑا مرجع خدا وندذوالجلال ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے:
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ (2:165)۔ یعنی، اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوادوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔
غیر اللہ کے ساتھ حبِّ شدید کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً غیر حقیقی خداؤں کے ساتھ بڑھا ہوا قلبی لگائو۔ اپنے اکابرسے بہت زیادہ عقیدت ،قوم کے ساتھ غیر معمولی محبت ،وغیرہ۔ آدمی کو جس چیز سے حبِّ شدید ہو اسی کی یاد میں وہ جینے لگتا ہے ، اسی کاتذکرہ اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب بن جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسری چیزیں رسمی تعلق کے خانہ میں چلی جاتی ہیں۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی خرابیوں کی جڑیہ ہے کہ ان کے اندر اللہ کے لیے حبِّ شدید نہیں۔ ذاتی مفاد، سیاسی اقتدار، قومی عزت، تاریخی عظمت، وغیرہ ان کے لیے عملاً حبِّ شدید کاموضوع بنی ہوئی ہیں، خداان کے لیے حبِّ شدید کاموضوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قسم کی چیزوں پران کے درمیان بڑی بڑی تحریکیں اٹھتی ہیں۔مگر محبت ِخداوندی کی بنیاد پر کوئی تحریک ان کے درمیان نہیں اٹھی۔
موجودہ زمانے میں جو علوم ِانسانی ظاہر ہوئے ان میں خدا کے وجود کویکسرحذف کردیا گیا مگرمسلم دنیا میں کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا جو اس پر تڑپے اور علوم جدیدہ سے واقفیت حاصل کرکے خدا کے وجود کو علمی حیثیت سے ثابت شدہ بنانے کے لیے محنت کرے۔ اللہ تعالیٰ کویہ مطلوب ہے کہ اقوام ِعالم کے اوپر ان کے فکر ی مستویٰ (intellectual level) کے مطابق خدا کے دین کی شہادت دی جائے، مگر ساری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر شخص نہیں جو اس کے لیے بے چین ہواوراس کو جاری کرنے کے لیے اٹھ کھڑاہو۔