تو فیق بقدرِاستعداد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں6 ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کاتذکرہ قرآن کی سورہ الفتح میں آیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:
جب منکرین نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت ، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول اور ایمان والوں پر ۔ اور اللہ نے ان کو تقوی کے کلمہ پر جمائے رکھا، اور وہ اس کے حق دار اور اس کے اہل تھے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(48:26)۔
اس آیت سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آزمائش کی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے توفیق بقدرِ استعداد کا نظام قائم فرمایا ہے۔ گو یا کہ یہ ایک قسم کا دوطرفہ معاملہ ہے ۔ جس آدمی کے اندر قبولیت کی استعداد موجود ہو گی اسی آدمی تک خدا کی توفیق پہنچے گی۔ ضروری استعداد کے بغیر کسی کو خدا کی توفیق نہیں مل سکتی ۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر دو فریق تھے، ایک طرف قریش اور دوسری طرف مسلمان۔ قریش کے اندر سرکشی کامزاج تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کی جانے والی ہر معقول بات کا انھوں نے انکار کیا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کے اندر بھی جو ابی اشتعال پیدا ہوجائے اور معاہدۂ امن کے بجائے تشدد اور جنگ کی نوبت آجائے۔ مگر صحابہ کرام نے سرکشی کے جواب میں سرکشی نہیں دکھائی ۔ ا ن کے دل کاتقویٰ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ وہ جوابی اشتعال سے بچ جائیں۔ و ہ اللہ کے منصوبہ کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیں۔
خدا کی طرف سے حق ظاہر کیا جاتا ہے مگر اس کے اعتراف کی توفیق وہی لوگ پاتے ہیں جو اپنے آپ کو خود پسندی کی نفسیات سے پاک کر چکے ہوں۔ خدا کی طرف سے جنّتی عمل کرنے کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوتی ہیں مگر ان صورتوں سے فائدہ اٹھانا صرف انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہو تا ہے جو دنیا کی طلب کو اپنے دل سے نکال چکے ہوں ۔ خدا کی طرف سے دعوتی کام کے مواقع کھولے جاتے ہیں مگر ان مواقع کو استعمال کرنے کا کریڈٹ انھیں لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے سینہ کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کر چکے ہوں۔