ظن و تخمین

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إیاکم والظن، فإن الظن أکذب الحدیث (صحیح البخاری، حدیث نمبر5143)۔ یعنی تم گمان سے بچو، کیوں کہ گمان بہت بڑا جھوٹ ہے۔قرآن میں بھی یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (49:12)۔ یعنی اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

ظن کا الٹا یقین ہے۔ ایک ہے ظن کی بنیاد پر بولنا، اور دوسرا ہے یقین کی بنیاد پر بولنا۔ ظن کی بنیاد پر بولنا یہ ہے کہ ایک بات جس کے بارے میں آدمی کے پاس صرف ناقص معلومات ہو، مگر وہ اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر قیاس کرکے ایک بات بیان کرے۔ اس قسم کا ظن (گمان) ایک قسم کا جھوٹ ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ گمان اور قیاس کی بنیاد پر کسی کے بارے میں ایک رائے دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی مکمل معلومات اور پوری تحقیق کے بعد اپنی رائے دے۔ اس قسم کا بولنا سچ بولنا ہے۔آدمی کا یہ حق ہے کہ اگر اس کے پاس کسی چیز کے بارے میں پوری معلومات ہوں تو وہ اس کے بارے میں ایک رائے دے، لیکن ناقص معلومات کی بنیاد پر بولنا،یہ ہرگز کسی کا حق نہیں۔

یہ بات کوئی سادہ بات نہیں۔ اگر آدمی کامزاج یہ ہے کہ وہ ناقص معلومات اور مکمل معلومات میں فرق نہ کرے۔ اس کے پاس ناقص معلومات ہوں، اور وہ اس طرح بولے جیسے کہ وہ علم کی بنیاد پر بول رہا ہے۔ ایسے آدمی کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) بنے گی۔ اس کا ذہنی ارتقا رک جائے گا۔ وہ روحانی ترقی کے منازل طے کرنے سے محروم رہے گا۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی بات پہنچے تو وہ غیر جانبدارانہ انداز میں اس کی تحقیق کرے۔ جو رائے قائم کرے، وہ حقیقی علم کی بنیاد پر ہو، نہ کہ ظن و تخمین کی بنیاد پر۔ ایسے آدمی کے اندر انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔ وہ روحانی بلندی کے منازل طے کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ شخصی ارتقا کے آخری درجے تک پہنچ جائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom