امت کی مسلسل اصلاح کا نظام

امت مسلمہ کے داخلی نظام کے بارے میں قرآن میں جو ہدایات آئی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِوَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (3:104)۔ یعنی اور ضرور ہے کہ تم میں ایک گروہ ہو جو نیکی کی طرف بلائے، وہ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

اس آیت میں ایک، منکم کا لفظ ہے، اور دوسرے، امۃ کا لفظ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ منکم سے مراد پوری امت ہے، اور امۃ سے مراد امت کا ایک منتخب گروہ۔ بالفاظ دیگر منکم سے مراد امت کبیرہ ہے اور امۃ سے مراد امت صغیرہ۔ یعنی مجموعی امت کی اصلاح کے لیے اس کے اندر ایک منتخب ٹیم ہونا چاہیے۔ اس ٹیم سے مراد وہی اصلاحی گروہ ہے جس کو یہود کی نسبت سے ربانی علماء (5:63) کہا گیا ہے۔ امتِ موسی کے درمیان ربانی علماءکا کام یہ تھا کہ وہ افرادِ امت کی ذہنی اصلاح کا کام کرتے رہیں۔ اسی طرح امتِ محمدی کے اندر ایک اصلاحی ٹیم موجود رہنا چاہیے جو امت کے افراد کو ہر حال میں درست فکر (right thinking) پر قائم رکھنے کا کام کرتی رہے۔

یہ ایک دوسطحی نظام ہے۔ پہلی سطح یہ ہے کہ امت کے اندر دین کی بنیاد پر ایک ڈھانچہ قائم رہے۔ اس ڈھانچے کے اجزاء مسجد، مدرسہ، حج، اور دوسرے غیر سیاسی ادارے ہیں۔ یہ ادارے اس بات کی ضمانت ہیں کہ امت میں فارم کی سطح پر ایک ڈھانچہ ہمیشہ قائم رہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ امت کے اندر ربانی علماء کی ایک ٹیم موجود ہو، جو امت کے افراد کی مسلسل نگرانی کرے۔ اور افرادِ امت کی ذہنی بیداری کے اس کام کو ہر نسل میں زمانے کے مطابق جاری رکھے۔اس کام کو حدیث میں تجدیدِ امت (سنن ابوداود، حدیث نمبر4291) کہا گیاہے۔ امت کی ایک ضرورت یہ ہے کہ فارم کے اعتبار سے اس کا ڈھانچہ برابر قائم رہے۔ اور امت کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہر نسل میں اس کے افراد کی مطابقِ حالات ذہنی تعمیر کی جاتی رہے۔

دو سطحی نظام کی ضرورت اس لیے ہے کہ فارم کی ایک مستقل صورت ہوتی ہے۔ مثلا پنج وقتہ نماز کا نظام یا سالانہ حج کا نظام، وغیرہ۔ یہ ہمیشہ ایک ہی ہیئت (form) پر قائم رہیں گے۔ دینی نظام کایہ پہلوعملی اعتبار سے ابدی ہے۔ اس ابدی پہلو کی طرف پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: صلوا کما رأیتمونی أصلی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 631)۔ اس حدیث کا مخاطب صرف صحابہ نہ تھے، بلکہ وسیع تر انداز میں اس کا خطاب پوری امتِ محمدی سے ہے۔

لیکن جہاں تک امت کے افراد کا معاملہ ہے، وہ ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتے۔ بلکہ نسل در نسل ان کے اندر تبدیلی آتی رہتی ہے۔دادا کے بعد باپ، باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتا، وغیرہ۔ بعد میں آنے والی نسلوں کو ہمیشہ مختلف حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ نیزطول امد (الحدید16:57) کی بنا پر اسپرٹ کے اعتبار سے ان کی بعد کی نسلوں میں زوال آجاتا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ اسپرٹ کے اعتبار سے ان کو دوبارہ تازہ دم بنایا جائے۔

افراد کی اس ذہنی تعمیر کے تقاضے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً انیسویں صدی عیسوی میں دنیا میں ایک نیا دور آیا جس سے امت کےافراد بھی شدت کے ساتھ متاثر ہوئے۔ وہ دور یہ تھا کہ مغرب کی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں۔ وہ پوری مشرقی دنیا پر سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے چھاگئیں۔ اس زمانے کی دوسری قوموں کی طرح مسلم قومیں بھی اس کی زد میں آگئیں۔ اس انقلاب کے نتیجے میں امت کے افراد عمومی طور پر منفی ذہنیت (negative thinking)کا شکار ہوگیے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس دورِ تبدیلی میں امتِ مسلمہ کے اندر’’ربانی علماء‘‘ کا کوئی گروہ نہیں اٹھا، نہ عرب دنیا میں اور نہ غیرِ عرب دنیا میں۔ اس دور میں کرنے کا کام یہ تھا کہ امت کے افراد کو نئے دور کا صحیح مطالعہ کرایا جائے۔ ان کی منفی سوچ کو ختم کرکے دوبارہ ان کو مثبت سوچ پر قائم کیا جائے۔ ان کو یہ بتایا جائے کہ مغربی قومیں تمھاری دشمن یا حریف نہیں ہیں، بلکہ وہ تمھارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تم کو چاہیے کہ تم مغربی قوموں کے بارے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ ان کے مقابلے میں مثبت ذہن کے ساتھ دعوت کی پر امن منصوبہ بندی کرو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom